دو یکسر مختلف چیزوں کی یکجائی، اجتماع النقیضین کہلاتی ہے۔ موجودہ زمانے کی سیاست اور ایمان داری میںبھی، لگتا ہے تقریباً اسی نوع کا، بْعد المشرقین ہے! کسی زمانے میں، اس کے بالکل برعکس، اس وادی میں داخلے پر ع شرط ِ اول قدم آنست کہ مجنون باشی! کی نوا، پیش ِنظر رہتی تھی۔ مگر اب؟ داد دیجیے لسان العصر کو، جن کی نظر، سب سے پہلے ایسی چیزیں دیکھ لیا کرتی تھی۔ کہتے ہیں: بدل جائے گا معیار ِشرافت چشم ِدنیا میں زیادہ تھے جو اپنے زْعم میں، وہ سب سے کم ہوں گے سیاست اور سیاسئین کرام سے، اب یہ سوال عبث ہے کہ ع ظالم یہ کیا نکالی، رفتار، رفتہ رفتہ اور سیاست کی رائج شکل کو قبول کرنے کے سوا، چارہ ہی کیا! وہ لوگ، جو مغربی سیاست دانوں کے دل دادہ ہیں، آنکھیں کھول کر دیکھیں تو کھلے کہ یہ منظر ایک جیسا ہے، جہاں تک دیکھتے جائیں یہ عالم ایک جیسا ہے، جہاں تک سوچتے جائیں سی آئی اے کے سابق چیف مائیک پومپیو، اب نئے وزیر ِخارجہ ہیں۔ ان کے تقرر میں، واحد رکاوٹ، ان کی اپنی جماعت کے سینیٹر، رینڈ پال تھے۔ سینیٹر صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ تقرری رکوانے کے لیے، مجھے اگر ایوان ِبالا کی کارروائی رکوانی پڑی، تو یہ بھی کر گْزروں گا! مگر ہوا کیا؟ امریکن صدر نے بروقت یہ بیان جاری کر دیا کہ رینڈ پال نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا۔ یقین ہے کہ آئندہ بھی نہیں کریں گے۔ اْن کا تو یہ بیان دینا، اور اِن کا پرانے موقف سے برات کا اظہار! اندر خانے، خدا جانے، کیا ہوا۔ باہر صرف سینیٹر صاحب کا یہ بیان آیا کہ مائیک پومپیو نے مجھے مطمئن کر دیا ہے۔ اور میرا ووٹ، اب ان کے حق میں ہو گا! لیکن یہ کہانی کا نسبتاً کم حیران کْن پہلو ہے۔ اصل تماشا، مخالف جماعت ڈیموکریٹ کی صفوں میں ہوا۔ اس جماعت کے بھی کئی سینیٹروں نے، پومپیو کی حمایت کر دی۔ وہی مضمون کہ خضر تو رہبری کو تھے موجود راہ چل دی مگر حضور کے ساتھ یہ وہ سینیٹرز تھے، جن کو رواں سال نومبر میں منعقد ہونے والے انتخابات میں ہارنے کا خدشہ ہے۔ امریکن عوام میں اپنے آپ کو مقبول کرنے کا، یہ پرانا حربہ ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ دیکھیے! اصولی موقف کے پیچھے، میں نے اپنی جماعت کی بھی پروا نہ کی! لیکن، رہنمائوں کا کام، عوام کی رہنمائی ہے یا رہنمائی عوامی امنگوں کے پیش ِنظر ہونی چاہیے؟ انگریزی محاورے میں اسے، بگھی کو گھوڑے میں جوتنا کہا گیا ہے! مجھے یاد ہے کہ دو ہزار نو میں، ایئر مارشل اصغر خان مرحوم سے، انٹرویو کے دوران، بھٹو صاحب سے اختلافات کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا کہ میں متاثر ہو کر، ان سے آ مِلا تھا۔ پھر اس دن ان سے میرا، ہمیشہ کے لیے اختلاف ہو گیا، جب ان سے پوچھا کہ آپ کا منصوبہ کیا ہے؟ بقول ایئر مارشل کے، بھٹو نے جواب دیا کہ عوام کو بے وقوف بنانے کا منصوبہ ہے! اور پھر قہقہہ لگایا! یہ واقعہ واقعہ تھا یا نہیں، اصغر خان، اسے پہلے بھی کئی دفعہ دہرا چکے تھے۔ ان کی زبان سے جب یہ بات سنی تو معاً خیال آیا کہ پچاسی سال سے متجاوز عمر، اور وہ بھی نیک نامی کی عمر، اس چل چلائو کے وقت میں، یہ جھوٹ کاہے کو بولیں گے؟ اگر پاکستان کی پچھلی پچاس سالہ سیاسی تاریخ کے، سب سے مقبول لیڈر کا پلان تھا کہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے، عوام کو بے وقوف بنائے، تو یہاں ، امریکہ میں بھی، اکثر لیڈر، عوام کے جذبات کے ساتھ، کھیلتے ہیں۔ اب آتے ہیں نئے وزیر ِخارجہ کی طرف۔ سی آئی اے کی حیثیت سے، مائیک پومپیو کے بیانات، موجود ہیں۔ انہیں مستقبل کی سمت کے تعین میں، قطب نما سمجھیے! پاکستان کی حد تک، پہلی دفعہ، اس انتظامیہ میں، یکسوئی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ دو چار روز پہلے، اسرائیل کا دورہ کر کے آئے ہیں۔ غزہ میں فلسطینیوں کی شہادت کے بارے میں، ان کی زبان سے افسوس کا کلمہ تک نہ نکلا۔ فلسطینی، ترکی اور ایک آدھ دوسرے ملک کے سوا، اپنے بھائی بندوں سے تو مایوس ہو تے جا رہے ہیں۔ امریکہ، ہرچند کہ اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی اور مددگار ہے، کسی نہ کسی حد تک، فلسطینیوں کی بھی داد رسی کرتا رہا ہے۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ اس خطے میں، امریکن پالیسی، بالکل یک طرفہ ہوتی جا رہی ہے۔ سوا سال ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد، ٹرمپ انتظامیہ کی راہ ِعمل، متعین ہوتی جا رہی ہے۔ سی آئی اے میں، پومپیو کی چھوڑی ہوئی کرسی پر، جو صاحبہ براجمان ہو رہی ہیں، وہ ان سے بھی آگے ہیں! یا یوں کِہ لیجیے کہ اب ایک پومپیو، سی آئی اے میں اور ایک وزارت ِخارجہ میں ہیں! سوچنے کی بات ہے کہ موجودہ انتظامیہ کو، اگر معاملات سدھارنا مقصود ہیں، تو ایسی تقرریاں کیوں کی جائیں، جن کی پسند و ناپسند، ان کے ہر فیصلے میں دخیل ہی نہیں، ان پر حاوی بھی نظر آتی ہے! اس انتظامیہ نے، سال سوا سال کی قلیل مدت میں، دسیوں تقرریاں اور تبدیلیاں کی ہیں۔ مگر خالی ہونے والی ہر نشست پر، پہلے والے سے کم نیک نام اور زیادہ سخت گیر کو بٹھا دیا گیا۔ حالانکہ اسی جماعت میں، خال ہی سہی، معقول لوگ موجود تھے۔ ع مجھ کو تو تم عزیز ہو، اپنی نظر کو کیا کروں! اور جو کچھ سہی، ان حالات میں، راوی چین ہرگز نہیں لکھتا! ٭٭٭٭٭ پرندوں کا ہم زبان ابو الحسن صاحب نغمی کا ذکر ان سطور میں آتا رہتا ہے۔ ہر مہینے کے آخری اتوار کو، بلا ناغہ، ورجینیا کے شہر فیئرفیکس میں، وہ ایک ادبی اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ پچھلا اجلاس، اے حمید مرحوم کی یاد میں تھا۔ میں نے دونوں بزرگوں کے باہمی تعلقات کی بابت پوچھا تو نغمی صاحب نے بتایا کہ اے حمید، ان کے نہایت عزیز دوست تھے۔ پھر کہنے لگے کہ چند روز پہلے، مجھے اپنا یہ مرحوم دوست بہت یاد آ رہا تھا۔ اچانک، کسی عنوان، اس کی تاریخ ِوفات پر نظر پڑی، جو انتیس اپریل ہے۔ یہ اس کا روحانی تصرف تھا! اس لیے کہ ہمارا اجلاس بھی اپریل کی انتیسویں ہی کو ہونا تھا! اب لازم تھا کہ اسے اپنے مرحوم دوست سے منسوب کر دیا جائے۔ اس کے بعد، نغمی صاحب نے چند دلچسپ واقعات سنائے۔ بعض گفتنی اور ایک آدھ ناگفتنی! ایک واقعہ آپ بھی سن لیجیے۔ اے حمید، کسی زمانے میں، امریکہ آ کر، وائس آف امریکہ میں ملازم ہو گئے تھے۔ اوروں کے لیے، امریکہ جیسا بھی ہو، اور اے حمید جتنے بھی سیلانی رہے ہوں، یہ سر تا پا دیسی آدمی، جلد ہی چیں بول گیا! اپنے وطن اور خصوصاً لاہور کا عاشق، وہی رنگ و بو، یہاں کے پھولوں میں نہ پا کر سخت افسردہ رہتا تھا۔ پھر ایک دن نغمی صاحب کے پاس آ کر، یہ آخری بپتا سنائی۔ "بھئی میں واپس لاہور جا رہا ہوں"۔ ’’ارے آپ کو یہاں آے ہوے، دن ہی کَے ہوے؟‘‘ بھائی یہاں کے پرندوں کی زبان بالکل مختلف ہے۔ میں نے انہیں بارہا مخاطب کیا، مگر جواب نہ ملا۔ جو کچھ یہ کہتے ہیں، میرے پلے نہیں پڑتا۔ میں واپس لاہور جا رہا ہوں! اور یوں، اے حمید واپس لاہور چلے گئے۔ بلبل ِخوش رنگ و خوش آہنگ، اڑان بھر کر، گویا اپنے بسیرے میں پہنچ گیا- جہاں ہم زبان پرندے، اس کے منتظر تھے! اور پھر ایک روز، یوم ِازل جس کے سامنے، "الست بربکم" کے جواب میں، "قالوا بلیٰ" کی گواہی ہوئی تھی، اسی ذات ِواحد کے حضور پہنچ گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!