اِس بار بھی رمضان المبارک میں لوگ جوق در جوق عمرہ کی ادائیگی کے لئے حجاز مقدس روانہ ہورہے ہیں ،یہ منظر ہم کیونکر فراموش کرسکتے ہیں جب ہر سال دربار الٰہی میں لاکھوں طلبگار اپنے خالقِ اور مالک سے دْعائیں اور التجائیں کرتے ہیں ،عشق کی آنکھ سے قطرے بہتے ہیں کوئی کیا مانگ رہا ہوتا ہے کسی کو ہوش نہیں ہوتا کانپتے ہونٹوں پر ان گنت فسانے ادھورے رہ جاتے ہیں۔ کیا روح پرور منظر۔ سبحان اللہ جب پوری فضا پرنور کی چادر تنی ہوئی ہوتی ہے، پھر وہ سفر اور وہ لمحہ جب ندامت اور شرمساری کے ناقابلِ فراموش تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب سمجھ نہیں آتا کہ کس طرح شافع محشرﷺ کا سامنا کیسے کیا جائے؟ حاضری اور سلام کرنے کا یہ حسین اور دلکش تصور جو ہمارے خوابوں میں کیا کیا رنگ بھرتا رہا ہے۔ ایک نظر دیکھنے کا اضطراب دِل کے اندر ایک شہرِ تمنا بسائے ہوئے ہے۔ وہ گنبدِ خضریٰ جس میں انسانِ کامل آرام فرمارہے ہیں جو ہماری تاریخ کا مرکز اور ہماری تہذیب کا محور ہے۔ ایک طرف ہم آسمان کی طرف دیکھ کر پروردگار کی حمدوثناء کررہے ہیں اپنے گناہوں پر معافی کے طلبگار ہیں۔ روضہ رسول پر آقائے نامدارﷺ سے اپنے عشق اور محبت کے پھول نچھاور کررہے ہیں تو دوسری طرف اِس مملکت خداداد میں ہم اپنی خود احتسابی نہیں کررہے۔ اپنے اعمال پر ندامت کا اظہار نہیں کررہے۔ بلکہ ہماری بزنس کمیونٹی نے رمضان المبارک کے آغاز سے ہی منافع خوری، مہنگائی، ملاوٹ اور لوٹ مار کے تمام ریکارڈ توڑدئیے ہیں، لگتا یہی ہے کہ بڑے بڑے کارخانے داروں سے لے کر بڑے بڑے مارٹ اور سپراسٹورزعام ریٹیلرز سے لے کر ٹھیلوں پر سبزیاں اور فروٹ بیچنے والوں کی چاندی ہوگئی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک میں اخلاقیات، ایمان اور اصول دم توڑچکی ہے حکومت کی اتھارٹی بے دم ہے، ایسا لگتا ہے کہ اِس ملک میں کوئی ایسا بااختیار شخص نہیں جس کا ضمیر اِس صورتحال پر تڑپتا ہو اور جس کی آنکھ شرم سے جھکتی ہو، لگتا یوں ہے کہ اِس ملک سے اصول، ایمان اور قانون رْخصت ہوچکا ہے۔ لگتا ہے کہ ابلیس ہم پر غالب آگیا ہے۔ وہ لوگوں کو سحری سے قبل تھپکیاں دے کر سلانے کے بعد خود رمضان کی برکت سے ہتھکڑیاں پہنے ہماری بزنس کمیونٹی کو یہ باور کرانے میں ضرور کامیاب رہا ہے کہ یہ سنہری موقع ہاتھ سے نہ جانے دو۔ اسی لئے ہمارا کارخانے دار اپنی پروڈکشن بڑھاکر جائز منافع کمانے کے بجائے حکومتی اہلکاروں کے ساتھ مل کر کروڑوں اربوں کے ٹیکس بچانے کی نئی نئی ترکیبوں پر عمل پیرا ہیں۔ میڈیم سائز اور نچلی سطح کا ریٹیلر خود کو ٹیکس سے پہلو تہی نہیں بلکہ استثنیٰ حاصل کرچکا ہے یہ ریٹیلر اپنے منافع اور لوٹ مار کا تعین خود اپنے طور پر کررہا ہے۔ حکومت کے پاس پرائز کنٹرول کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں حکومت اپنے اللے تللوں کرپشن میں براہِ راست ملوث ہے اور نظام کے آپریٹرز دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں میں گاؤں اور باغات سے لے کر منڈی اور پھر منڈی سے عام مارکیٹوں میں سپلائی کے نظام میں آڑتھ کے نام پر مافیا سرگرم ہے، ڈیری، دودھ، دہی، انڈوں کی پیداوار اور سپلائی کے پورے نظام پر چند چیدہ چیدہ بااثر لوگوں کا کنٹرول ہے۔ حکومت اپنے اخراجات پورا کرنے کے لئے پوری دنیا میں بھکاریوں کی طرح کشکول لئے پھررہی ہے۔ پاکستان کے علاوہ آپ دنیا کا کوئی ایسا ملک بتادیں جو خود ترقی نہیں کرنا چاہتا۔ جس ملک میں مواقع سکڑرہے ہیں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ آمدن اور اخراجات میں کوئی توازن نہیں 24 کروڑ میں سے دس کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے جاچکے ہیں۔ ملک سے ہنرمند لوگ غیر ممالک میں جسے جہاں موقع مل رہا ہے جارہا ہے۔تعلیم اور صحت کا پورا نظام عوامی بہبود اور اْمنگوں کے برخلاف ہے۔ سرکاری سطح پر نہ اسکولز اور کالجز میں موثر فیکلٹیز ہیں، نہ اْن کا کوئی معیار ہے۔ صحت کے حوالے سے سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی افسوس ناک ہے۔ ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ بجلی، پیٹرول اور گیس کے بل اور نرخ اب عام لوگوں کے لئے قابلِ برداشت نہیں رہے۔ سیاست بٹوارے کا کھیل بن گیا ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ ملک مگرمچھوں کا تالاب ہے اور آپ اِس تالاب میں اسی صورت زندہ رہ سکتے ہیں کہ آپ خود مگرمچھ ہوں یا پھر آپ کسی مگرمچھ کے چاچے مامے پھوپھے بھتیجے بھانجے یا بیٹے ہوں، ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ آپ اس ملک میں کوئی جینوئین شخص سسٹم کے سانڈ کو سرخ رومال دکھاکر زندہ نہیں رہ سکتا اور اِس حقیقت کو بھی تسلیم کرلیں کہ ایسے ملک جہاں اْصولوں اور سچائیوں کا سورج ڈوب رہا ہو وہ زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکتے مجھے سچ مچ خطرہ ہے کہ اگر حکومت اور بااختیار لوگوں نے عوام کی تکلیف اور اضطراب کو نہ سمجھا تو شاید اللہ تعالیٰ اْنہیں دوسری وارننگ نہ دے۔ جس طرح دنیا میں کسی دکھی دِل کی دعا اکارت نہیں جاتی اس طرح کسی مظلوم کی بد دعا بھی رائیگاں نہیں جاتی۔ حکومت نے اگر اب بھی عوام کے اس تکلیف دہ سفر کو نہ روکا تو بہت دیر ہوجائے گی اور دوسری وارننگ کا موقع نہ آئے لوگ کہتے ہیں کہ اس ملک میں سب چلتا ہے لیکن یاد رکھیں اس طرح ملک نہیں چلتا۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چھوڑ کر دولت دنیا میں ڈوب گئے ہیں۔ ذرا قرآن اور رمضان کے تعلق پر غور کریں ایسی انمول دعوت ملے گی۔ جس کے اندر خزانے چھپے نہیں کھلے عام نظر آتے ہیں کسی کی بھوک پیاس کا بھی احساس ہوگا۔ دکھ درد سے بھی آشنائی ملے گی اور یقین جانیں آپ کو ہر لمحے نئی منزل میسر آئے گی۔ اللہ اکبر۔