75سال کی'' محنت شاقہ'' کے بعد بھی ہم یہ بات سمجھ نہیں پائے کہ ملکی ترقی کو کس طرح ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کبھی ہماری خارجہ پالیسی کے تار پود کوئی اور بن رہا ہوتا ہے اور ہم بڑے فخر سے آزاد خارجہ پالیسی کا ڈ ھونڈرا پیٹ رہے ہوتے ہیں اور کبھی ہماری داخلی حکمت عملی انتشار کا شکار ہوتی ہے اور ہم باہم دست و گریباں ہوتے ہیں آخر ہمارے ''لپس '' اور'' ایکشن ''میں واضح تضاد کیوں ہے کیا ہم اپنی درست سمت کا تعین کرنے میںبھی با اختیار نہیں؟ حیرانگی کی بات ہے کہ ہمارے ''ٹرینڈسیٹلرز''بھی کوئی اور ہیں 2001ء میں نتائج کی پروا کئے بغیر ایک منصوبہ کے تحت افغانستان کے امن کو تہ تیغ کردیا گیا جس کے بعد ایک ایسی حکومت قائم کی گئی جس کی جڑیں اٖفغان اور افغانستان میں نہیں تھیں ان دنوںغیر ملکی میڈیا امریکی و اتحادی افواج کے فضائی حملوں کے بعد کابل اور قندہار کی ایسی تصویر کشی کر رہا تھا کہ جیسے طالبان حکومت مکمل پسپا ہو چکی ہے اور مخالف لابی امریکی اور اتحادی افواج کے استقبال کیلئے سڑکوں پر نکل آ ئی ہے اور شاہرات پر عوام کا جم غفیر امڈ آیا ہے اور طالبان کے خلاف نعرہ بازی کی جارہی ہے۔ مجھے یہ با تیںہضم نہیں ہو رہی تھیں حقائق کی جستجو میں میرا رابطہ اپنے ایک افغان دوست سے ہوا اس نے بتایا کہ کل ہی میری قندہار میں مقیم اپنی فیملی سے بات چیت ہوئی ہے وہ لوگ بڑے مطمئن تھے غیر ملکی میڈیا کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، قندہار میں ابھی تک طالبان کا مکمل کنٹرول ہے اور کابل میں بھی ان کی حکومت قائم ہے امریکی اور اتحادی افواج کابل اور قندہارکے نواح میں فضائی حملے کر رہی ہیں جس کا طالبان فوج اپنی بساط کے مطابق جواب دے رہی ہے ۔افغان دوست کادعویٰ تھا کہ طالبان کو امریکی و اتحادی افواج زمین پر کسی صورت شکست نہیں سکتی کیونکہ افغان عوام کی اکثریت ان کی حامی ہے تاہم امریکی و اتحادی افواج ٹیکنالوجی کے ذریعہ کچھ بھی کر سکتی ہیں پھر دنیا بھر میں جس طرح طالبان کو ''آ ئیسولیٹ'' کردیا گیا ہے اس کا بھر پور فائدہ طالبان مخالف لابی اٹھا سکتی ہے اب بات سمجھ آئی کہ دراصل فیصلے حقائق کی بنیاد پر نہیں بلکہ طے شدہ پالیسی کے مطابق کئے جاتے ہیں اور طے شدہ پالیسی کا'' میڈیا وار'' کے ذریعہ راستہ ہموار کیا جاتا ہے۔ دو روز قبل ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کی اردو سروس میں سوات کی موجودہ صورتحال بارے ایک مکمل رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ سوات کا امن ایک بار پھر طالبان کے ہاتھوں سبوتاز ہونے کو ہے۔ بار بار'' سوات کے امن'' اورملالہ یوسف زئی کی بات بھی کی جا رہی تھی ،سوات سے ہزاروں کلو میٹر دور ایک سینئر پاکستانی صحافی غیرملکی نشریاتی ادارے کے سٹوڈیو میں بیٹھ کرسوات اور گردو ونواح کی صورتحال بارے اپنا تجزیہ پیش کر رہے تھے ساتھ ساتھ وہاں حالیہ طالبان مخالف عوامی مظاہروں کی فوٹیج بھی دکھائی جارہی تھی۔ سینئر پاکستانی صحافی کی رائے تھی اب اگرطالبان نے سوات کے امن کو سبوتاز کرنے کی کوشش کی پھر عوام ان کے خلاف ڈٹ جائیں گے وہ کبھی بھی اپنے گھر و بار کا روبار کو نہیں چھوڑیں گے: گھر بار کہاں کوچہ و بازار مری جاں درویش کو دنیا نہیں درکار مری جاں غیر ملکی ادارے کی سوات بارے رپورٹ دیکھنے کے بعد پریشانی ہوئی آخر کب تک ایسی خبریں سنتے رہیں گے؟ ایک کارکن صحافی ہونے کے ناطے حقائق کی جستجو میں میرا رابطہ اپنے ایک دیرینہ صحافی دوست سے ہواجس کا تعلق سوات سے ہے علاقہ کی تعمیرو ترقی اورقیام امن کیلئے اس کے خاندان کی قربانیاں بے مثال اور مسلمہ ہیں جس کا بھائی اور بیٹا آج بھی وطن کے دفاع میں مصروف عمل ہیں،میں نے سوات کی صورتحال بارے پوچھا ،میرے استفسار پر اس نے بڑے اطمینان سے کہا کہ میں سب کچھ بتا دیتا ہوں پریشانی کوئی بات نہیں اس کا جواب سننے کے بعد ذرا اطمینان قلب ہوا ،ہوا کے دوش پر ہونے والی ہماری طویل گفتگو ایک بار بھی معطل نہیں ہوئی اس نے اپنی گفتگو کا آغاز کچھ اس انداز میں کیا ''دیکھو برادر!ہر کوئی اپنی مٹی کی خوشبوسونگھنے کیلئے تڑپ رہا ہے کیوں نہ اسے یہ موقع فراہم کردیا جائے ؟ 2009ء میں ہونے والے فوجی آپریشن کے نتیجہ میں سیکڑوں افراد ملک سے فرار ہوگئے تھے جن کی اکثریت نے افغانستان اور خلیجی ریاستوں میں ڈیرے ڈال لئے تھے اور سیکڑوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا ان کی اکثریت آج بھی قید ہے اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں وہ اس انتظار میں ہیں کہ کب تازہ ہوا کا جھونکا آئے اور وہ اپنے والدین اور بیوی بچوں میں ہوں انہیں اس عالم 14سال بیت گئے ہیں 2013ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہو گئی تھی جس کی ان کے بارے پا لیسی تقریبا پاکستان پیپلز پارٹی کی پرتو تھیں ان کے بارے کسی کو کوئی خیال نہ آیا کہ آخر کچھ کیا جائے؟ شاید پاکستان پیپلز پاٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سوچ ان بارے مثبت ہو لیکن نام نہاد پشتون حقوق کی علمبردار ایک جماعت نے ان دونوں جماعتوں کو کچھ نہیں کرنے دیا ان دونوں جماعتوں سے مایوس ان لوگوں کیلئے امید کی آخری کرن عمران خان اور تحریک انصاف تھی2018ء میں یہ لوگ مکہ معظمہ میں جمع ہوئے اور انھوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کی جیت کیلئے بیت اللہ میں دعائیں کیں۔ عمران خان نے بھی برسر اقتدار آنے کے بعد ان کے بارے ''سافٹ امیج''کریٹ کیا لیکن بد قسمتی سے وہ ان کے مستقبل کا کوئی فیصلہ نہ کر سکے بیرون ملک مقیم اور قید میںوہ لوگ ہیں جو کسی صورت بھی ملکی آئین و قانون کو توڑنے والے نہیں، کچھ کو غلط فہمی اور کچھ کو اپنی غلطی کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں تاہم وہ شرمندہ ہیں، اگر ان کی واپسی کی کوئی حکمت عملی بنا دی جائے پھر سوات میں کوئی مسئلہ نہیں رہے گا وہاں سب امن و امان ہے یہ سب ان لوگوں کے عزیز و اقارب ہیں جو آج سڑکوں پر ہیں اگر موجودہ حکومت ان کے عزیزوں بارے کوئی حکمت عملی بنا دے اس سے اس کی پاپولیرٹی میں بھی اضافہ ہو گا۔