دسمبر کا آغاز ہوتے ہی اداسی ایک قومی مزاج کی طرح پر ہم پر چھا جاتی ہے۔زندگی کی بے ثباتی ،دوستوں کی بے وفائی ، درد ، جدائی اور ہجر سے متعلق اقوال اور اشعار ایک آبشار طرح سوشل میڈیا کی دیواروں پر بہنے لگتے ہیں ۔عرش صدیقی کی بہت ہی خوبصورت اور مکمل نظم ’اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے‘ کی دسمبر آتے ہی وہ درگت بنتی ہے کہ الاماں! چند روز پیشتر معاصر اخبار میں ایک کالم پڑھا جو دسمبر کے آغاز کے دنوں میں شائع ہوا اس میں کالم نگار نے زندگی کی خوفناک اور تاریک تصویر پیش کی۔خلاصہ یہ تھا کہ موت ہمارے پیچھے لگی ہوئی ہے پہلے ہمارے بڑوں کو موت نے نگل لیا اب میں اس کا شکار ہوجائوں گا ،موت مجھے نگل لے گی، میرے بچوں کا کیا ہوگا یہاں زندگی بہت مشکل ہے یہاں معاشی حالات اچھے نہیں ہیں۔ وغیرہ وغیرہکالم نگار نے اپنے کالم کے ذریعے اپنے دل کی اداسی اور مایوسی کو لاکھوں قارئین تک پہنچایا۔ لوگ پہلے ہی معاشی مجبوریوں کے پہاڑ سر کرتے ہوئے سماجی ناانصافیوں سے گزر رہے ہیں، انہیں حوصلے اور امید کی ضرورت ہے، ما یوسی پر مبنی تحریریں پڑھنے والوں کو مزید تاریکی میں دھکیل دیتی ہیں۔ اداسی بے شک زندگی کا حصہ ہے اور ہم شاعر تو یہ یقین رکھتے ہیں کہ تخلیق اداسی کے بطن سے جنم لیتی ہے۔میں خود اداسی کے اسی شاعرانہ مزاج کے پیدا ہوئی۔ اداسی اس وقت بھی میری سہیلی تھی، جب ابھی زندگی کو برتا نہ تھا ایک چھت تلے والدین اور بہن بھائی زندگی کی بے فکری جیسی نعمت میسر تھی، اس کے باوجود کبھی کبھی ایک عجیب سی اداسی کی کیفیت طبیعت پرچھا جاتی۔ عیدوں پر اپنی اکلوتی پھپھو کے بچھڑنے کا غم ستاتا اور اپنا خاندان ان کے وجود کے بغیر ادھورا لگتا۔اگرچہ ہم لوگ ہمیشہ مختلف شہروں میں والد صاحب کے ساتھ رہے اور وہ گاؤں میں رہتی تھی لیکن میری اداس فطرت ناخوش رہنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ڈھونڈ لیتی۔ اہل وطن کے غم الگ تھے اسوقت بہت دکھی اور اداس اس نظمیں لکھتی۔لیکن میرے مزاج میں ایک عجیب پیراڈوکس موجود تھا۔اداسی کے ساتھ ایک ولولہ تازہ بھی دل کو بھرے رکھتا۔ خوابوں اور امکانات کی ایک دنیا میرے ساتھ جگمگاتی رہتی۔وقت کو بہترین طریقے سے گزارنے کا ایک احساس ہمہ وقت مجھ پہ چھایا رہتا ہے۔کبھی کبھی عود کر آنے والی اداسی بھی گھمبیر ہوتی اور ولولہ تازہ جو دل کو ایک سرخوشی سے اور امکان سے بھر دیتا وہ بھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود تھا۔ میں نے زندگی اسی پیراڈوکس کے ساتھ گزاری۔سال کا آخری مہینہ دسمبر شروع ہو جاتا تو زرد اداسی مجھے اپنے حصار میں لے لیتی ، پھر دسمبر ہی میں والدہ کی ناگہانی وفات نے اس دکھ غم اداسی اور جدائی اپنی پوری معنویت کے ساتھ مجھ پر وارد ہوگئے۔یہی سب کچھ دسمبر کا استعارہ بن گیا۔یہ اداسی ہر دسمبر میری تحریر کا حصہ بنتی رہی ۔ ایک اور سال گزرنے کا احساس ہم سب کے اندر ایک احساس زیاں کو جنم دیتا ہے اسی سے ملال اور اداسی پیدا ہوتی ہے۔بطور کالم نگار جب یہ احساس ہوا کہ میری تحریروں سے بہت سارے ذہن جڑے ہوئے ہیں۔ ایسے جہان دیدہ اور پختہ بھی جنہوں نے زندگی کی اونچ نیچ دیکھی ہے اور ایسے۔ناپختہ ذہن بھی جو ابھی عمر کی اس منزل پہ ہیں جہاں سے سفر آغاز ہوتا ہے، اگر آپ نے یہ اداسی ان تک منتقل کر دی تو ان ذہنوں کا کیا ہوگا۔ مسافروں کو زاد سفر میں خواب اور امید دینی چاہیے۔اس وقت سے ہی گاہے گاہے ایسی تحریریں لکھنی ہیں جس سے قارئین میں امید اور یقیںن کی روشنی پھیلے ،ان کی توانائیاں مثبت سوچ کے طرف مڑ جائیں وہ مشکلات کے باوجود زندگی کو بہتر انداز میں جی سکیں۔کالج کی طالب علم تھی جب میں نے بشیر جمعہ کی وقت کی قدر کے حوالے سے ایک شاندار تحریر پڑھی جس نے میری زندگی کو بدل دیا اور میں آج بھی اس اخبار کی شکر گزار ہوں جنہوں پاکستان کے پہلے موٹی ویشنل مصنف محمد بشیر جمعہ کی وقت کی اہمیت بارے وہ تحریر شائع کی جومیری سوچ پر اثر انداز ہوئی۔ہزار دو ہزار ا لفاظ کے مضمون میں جو کچھ تھا میں نے اسے پلے سے باندھ دیا اور مقدور بھر کوشش کی کہ اسے اپنی زندگی میں شامل کیاجائے، یوں اداسی کی سہیلی ہوتے ہوئے بھی زندگی کو pragmatic انداز میں گزارا۔فکشن اور شاعری کے ساتھ سیلف گرومنگ ,پر مبنی دنیا کی بیسٹ سلیر کتابیں پڑھنا مجھے ہمیشہ مرغوب رہا ۔ اداسی آج بھی میری فطرت کا حصہ ہے مگر میں اس کی سمت کو مثبت انرجی کی طرف موڑنے کا ہنر سیکھ چکی ہوں۔ اسے لفظوں کی صورت کاغذ پر اتاردیتی ہوں۔ زندگی کا بوجھ نہیں بناتی ایسا ارادتاََ کرنا شروع کیا کہ خود کو اداسی کے تاریک دائرے سے فوراً نکالا جائے۔ یہ اتنا مشکل نہیں بس اپنی سوچ کی سمت بدلنے کی ضرورت ہے ۔ اداسی کے لیے انگریزی کا ایک لفظ melancholy استعمال ہوتا جس کا مطلب نا خوشی ہے۔اس نا خوشی کا علاج صرف شکرگزاری سے ممکن ہے ۔اداسی اور ناخوشی کی کیفیت سے نکلنے کا تیر بہدف نسخہ یہ بھی ہے کہ آپ مخلوق خدا کے دکھوں اور تکلیفوں کو دور کرنے کے لئے بساط بھر کوشش میں لگ جائیں۔ بھوکے کو کھانا کھلانا ,صدقہ خیرات کرنا ،کسی غریب رشتہ دار کی مالی مدد کرنا ,گھریلو مدد گار کی غیر متوقع مدد کر دینا ۔ یہ سب ایسے کام ہیں جس میں آپ اپنی ذات کے دائرے سے باہر نکل کر اللہ کی مخلوق کے ساتھ جڑتے ہیں۔ یقین کریں کہ یہ سب وہ کام ہیں سے جس سے نہ صرف آپ کی زندگی پر چھائے ہوئے اداسی اور ملال کے بادل چھٹ جاتے ہیں بلکہ امید اور امکانات کے نئے در بھی وا ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی کہ ہلکی پھلکی کی اداسی تو جائز ہے مگر ہر وقت کی اداسی ذہنی بیماری کے سوا اور کچھ نہیں۔