امریکہ میں سابق فوجی افسروں اور جوانوں کا ترجمان ایک مقبول عام جریدہ ’’ویٹرنز ٹوڈے‘‘ (Veterans today) ہے۔ ویٹرن کا عمومی ترجمہ تو پختہ کار اور تجربے کار کی صورت لغات میں ملتا ہے، لیکن جدید صحافتی زبان میں اسے ’’مردِ جنگ آزمودہ‘‘ کے طور پر ہی لیا جاتا ہے۔ یعنی ایک ایسا شخص جو کسی فوج سے نہ صرف وابستہ رہا ہو بلکہ اس نے جنگیں بھی لڑی ہوں۔ امریکہ میں کئی سالوں سے سابقہ فوجیوں کی لاتعداد انجمنیں موجود ہیں جن کا مقصد ریٹائرڈ فوجیوں کی ملازمت یا جنگوں میں معذور اور زخمی ہو کر فوج سے برطرف کئے گئے افراد کا خیال رکھنا ہے۔ گذشتہ پچاس سالوں سے ان تنظیموں کا سب سے اہم کام ایسے امریکی فوجیوں کی دیکھ بھال کرنا ہے جو جنگوں میں شرکت کی وجہ سے ذہنی طور پر پاگل ہو گئے، کیونکہ یہ تعداد دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی تنظیم ’’راجر‘‘ (Roger) ہے۔ راجر دراصل کسی وائرلیس پیغام کے اختتام پر اس وقت بولا جاتا ہے جب بات سمجھ میں آ جائے۔ فوجی مہمات میں یہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ ویت نام کی جنگ میں جب امریکی فوجیوں کے تابوت کثیر تعداد سے امریکہ آنے لگے اور سپاہیوں میں جنگ کی ہولناکیوں کی وجہ سے پاگل پن بڑھنے لگا تو ویٹرنز کی یہی تنظیمیں دیگر امریکیوں کو ساتھ لے کر سڑکوں پر نکل آئیں اور امریکہ کو ناکام و نامراد ویت نام سے واپس لوٹنا پڑا۔ ویت نام کے بعد کسی بھی ملک میں امریکی افواج کی براہِ راست مداخلت میں ایک لمبا وقفہ آ گیا۔ سوویت یونین اور افغانستان کی جنگ تو ہوئی لیکن اس میں امریکہ صرف ممدومعاون رہا اور امریکی افواج دُور کھڑی تماشائی بنی رہیں۔ سوویت یونین کی شکست کے بعد یوں لگتا تھا جیسے اب دُنیا ایک سپرپاور کے زیرِ سایہ آنے کی وجہ سے امن و آتشی کا گہوارہ بن جائے گی۔ جب دُنیا بھر کو واحد قوت امریکہ نے ہی کنٹرول کرنا ہے تو پھر جنگ و جدل اور لڑائی کا سوال ہی کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن گیارہ ستمبر 2001ء کو ’’ورلڈ ٹریڈ سینٹر‘‘ پر حملے نے دُنیا ہی بدل کر رکھ دی۔ اس واقعے کا عالمی سطح پر مجموعی تاثر، اس قدر شدید تھا کہ جارج بش اور ٹونی بلیئر نے جس کسی کو دُشمن کہا دُنیا نے مان لیا۔ اقوام متحدہ نے پوری متحدہ دُنیا کو نہتے افغانستان پر کودنے کا لائسنس جاری کر دیا۔ امریکی اپنی پوری فوجی قوت سے وہاں داخل ہو گئے لیکن تھوڑے دنوں بعد ہی ان کے تابوت امریکہ جانے شروع ہو گئے۔ جنگ کے دوران نیویارک میں مرنے والوں کی یاد اس قدر مسلسل منائی جا رہی تھی کہ کوئی اتنے امریکیوں کے مرنے پر بھی زبان نہیں کھولتا تھا۔ ہر طرح کا ظلم دُنیا بھر کے مسلمانوں پر روا تھا، گوانتانا موبے سے لے کر بگرام تک کے قید خانے، افغانستان کے نہتے عوام پر شدید بمباری،مگر کوئی بولتا تک نہ تھا۔ سب کو اس خوف میں مبتلا کر دیا گیا تھا کہ اگر مسلمان جہادی گروہوں کو آج نہ دبایا گیا، تو یہ امریکی سرزمین کو مستقل گیارہ ستمبر کی طرح حملوں کی زد میں رکھ لیں گے۔ لیکن جیسے ہی امریکہ نے صدام حسین کے عراق پر حملے کا ارادہ کیا تو امریکہ اور یورپ کے تمام شہروں میں احتجاج شروع ہو گیا۔ یہ احتجاج انتہائی شدید تھا، مگر امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک نے اس کی پرواہ نہ کی اور عراق میں فوجیں اُتار دیں۔ عراق پر حملے کے فوراً بعد یہ جریدہ ویٹرنز ٹوڈے ایک ویب سائٹ کے طور پر شائع ہونا شروع ہوا اور آج یہ بہت بڑا میڈیا نیٹ ورک بن چکا ہے۔ یہ اس وقت امریکہ کے سابق فوجیوں کی سب سے بڑی آواز ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں یہ واحد رسالہ یا ویب سائٹ ہے جسے ’’یہودی دُشمن‘‘ (Anti Semite) کہا جاتا ہے۔ اس کے خلاف مین سٹریم میڈیا مسلسل الزام لگاتا رہتا ہے۔ سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ یہ روس کے مشہور جریدے "New Eastern Outlook" اور ایران کے ’’پریس ٹی وی‘‘ سے تعلقات رکھتا ہے اور روس کے لاتعداد ادارے اس جریدے کے پارٹنر ہیں۔ اسرائیل نے اسے اسرائیل دُشمنی میں صفِ اوّل کا حریف قرار دے رکھا ہے اور یہ واحد امریکی صحافتی ادارہ ہے جس کے ارکان کو اسرائیل میں داخلے کی اجازت نہیں۔ گذشتہ دس سالوں میں اس نے امریکی فوجیوں کے بارے میں جو رپورٹیں اور اعدادوشمار شائع کئے، انہوں نے نہ صرف پوری امریکی سوسائٹی کو دہلا کر رکھ دیا، بلکہ دُنیا بھر کے سامنے جنگ کی اصل صورتِ حال رکھی۔ چونکہ یہ جریدہ ایسے سابقہ فوجیوں سے مسلسل رابطے میں رہتا تھا جو افغانستان اور عراق سے واپس آئے تھے، اس لئے اس نے ان کی کسمپرسی پر لاتعداد مضامین لکھے اور ویڈیوز جاری کیں۔ ان میں سب سے خوفناک یہ انکشاف تھا کہ روزانہ بائیس سابقہ امریکی فوجی خودکشی کرتے ہیں اور ان میں سے چار لاکھ سے بھی زیادہ ایسے سابقہ فوجی ہیں جو شدید ذہنی بیماری کا شکار ہو چکے ہیں جسے "Post Traumatic stress syndrome (PTSD)"کہتے ہیں۔ یہ اعدادوشمار 2014ء میں آنا شروع ہوئے اور مسلسل آتے رہے۔ اس کے بعد امریکی رائے عامہ نہ سنبھل سکی اور باوجود کوشش امریکہ افغانستان میں مزید افواج نہ بھیج سکا۔ تازہ یوکرین روس جنگ کے آغاز سے اب تک اس اخبار کے مضامین میں سے دو اہم مضامین ایسے ہیں جو اس وقت بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں اور یورپ ، روس اور اسرائیل کے تجزیہ نگار اپنے اپنے تعصبات کی بنیاد پر ان مضامین کے مندرجات پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ پہلے مضمون کا عنوان ہے "Ukraine indignant at 80% of Jews in Power" ۔ ’’یوکرین میں 80 فیصد غم و غصہ اس وجہ سے ہے کہ وہاں یہودی اقتدار میں ہیں‘‘۔ جبکہ دوسرا مضمون مشہور تبصرہ نگار جم فٹزر (Jim Fitzer) کا ہے جس کا عنوان ہے "Water terrorism by India to overawe Pakistan" ۔ ’’بھارت کی پانی کی دہشت گردی، پاکستان کو خوف دلانے کے لئے‘‘۔ یہ دونوں مضامین دراصل آنے والی بڑی عالمی جنگ کے دو بنیادی میدانوں کی جانب نشاندہی کرتے ہیں۔ ایک ’’یوکرین‘‘ اور دوسرا ’’پاکستان‘‘۔ وہ لوگ جو امریکی جنگی جنون کو سمجھتے ہیں، ان کے مطابق امریکہ اپنی اگلی جنگ انہی دونوں میدانوں میں لڑنے کی منصوبہ بندی مکمل کر چکا ہے۔ یہ جنگ یوں تو چین کی معاشی ترقی کو روکنے کے لئے ہو گی، لیکن روس کو اس میں کودنے سے روکنے اور اسے اپنی جنگ میں مصروف رکھنے کے لئے یوکرین کا محاذ کھولا گیا ہے۔ ایک ماہ پہلے اس ادارے کے سربراہ گورڈن ڈف (Gordan Duff) نے امریکہ کے سب سے معتبر 83 سالہ سیاسی معیشت دان مائیکل ہڈسن (Michael Hudson) اور دیگر ماہرین کے ساتھ ایک طویل انٹرویو شائع کیا، جس کا عنوان ہی دہلا دینے والا ہے "Sociopath necons Sacrifice Ukraine and global poor"۔ ’’سماج دُشمن‘‘ نیوکون دُنیا کے غریبوں اور یوکرین کے عوام کو قربان کر دیں گے‘‘۔ سماج دُشمنی دراصل Sociopath کا صحیح ترجمہ نہیں ہے۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جس میں آدمی معاشرے اور معاشرتی خوشحالی کا دُشمن ہو جاتا ہے اور نیوکون (Necons) یہودی لابی کے ان امریکی سیاست دانوں اور بزنس مین کا گروپ ہے جن کے سرمائے سے امریکی صدر منتخب ہوتا ہے۔ مائیکل ہڈسن کے مطابق ابھی تو جنگ کا آغاز ہی ہوا ہے اور پوری دُنیا کے ممالک اس خوف کا شکار ہو چکے ہیں کہ دُنیا کی خوراک کا چالیس فیصد تو روس اور یوکرین میں پیدا ہوتا ہے، تو وہ کھائیں گے کہاں سے۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس وقت یوکرین کی جنگ میں 52 لاکھ بچے ایسے ہیں جو اپنا گھر نہ صرف چھوڑ کر مہاجر ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے براہِ راست جنگ کے مناظر بھی دیکھے ہیں جس سے ان کی نفسیاتی صحت بہت حد تک متاثر ہو چکی ہے۔ یوں تو اس وقت دُنیا میں 45 کروڑ بچے ایسے ہیں جو ان جگہوں پر رہتے ہیں جہاں جنگیں ہو رہی ہیں۔ لیکن یہ بحث جس میں مائیکل ہڈسن شریک تھا، اس کے تمام شرکاء نے بالاتفاق یہ کہا کہ تھوڑے ہی عرصے میں دُنیا کے تمام وار زون (War Zone) یا جنگی تھیٹر جہاں ہلکی پھلکی جنگیں ہو رہی ہیں جلد ایک بہت بڑے میدانِ جنگ میں تبدیل ہو جائیں گے۔