ترک معاشی و سیاسی استحکام کی داستان بڑی طویل ہے وہاں تبدیلی راتوں و رات آئی اور نہ ہی ترک مخلص سیاسی قیادت نے کسی'' طاقت'' کو اقتدار تک پہنچنے کیلئے اپنا زینہ بنایا ، ایک دور تھا جب ترک عوام کمال اتاترک کی سیکولر تھیوری کے دیوانہ تھے اور اس تھیوری کی مخالف سمت چلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے ایسے حالات میں اس تھیوری سے ٹکرائو کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ایک مسلسل جدوجہد تھی جس کا بیڑہ ترک مخلص سیاسی قیادت نے اٹھایا۔''تبدیلی ''کا عمل بظاہر سست روی کا شکار نظر آیااور اس کی عوام میں فوری پزیرائی نہیں ہو ئی دور اندیش قیادت نے اس موقع پر اس بات کی پروا نہیں کی اوریہ سب سے بڑی حقیقت تھی کہ اس سارے عمل میں کوئی تصنع نہیں تھا بلکہ پائیداری و تسلسل تھا اوراس کے پس پردہ مسلسل جد وجہد تھی آج تب ہی کمال اتا ترک اور طیب اردگان کے ترکیہ (ترکی) میں فرق صاف نظر آتا ہے۔ زمانہ معترف ہے اک ہمارے استقامت کا نہ ہم سے قافلہ چھوٹا نہ ہم نے رہنما بدلا رہِ الفت میں گو ہم پر بڑا مشکل مقام آیا نہ ہم منزل سے باز آئے نہ ہم نے راستہ بدلا 1990ء کی دہائی میں ترک طلباء کے ساتھ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں زیر تعلیم رہا، اخلاق اور اخلاص کا پیکر تھے ان کی پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ محبت بے لوث تھی یہ وہ وقت تھا جب ترک مخلص قیادت ترکیہ (ترکی ) کے'' اسٹیٹس کو'' کو غیر محسوس انداز میں توڑنے کیلئے افرادی قوت کی تیار ی میں مصروف تھی۔ ایوان اقتدار میںترگت اوزال براجمان تھے جنہیں اسٹیبلشمنٹ کو ڈیل کرنے کا خاصا تجربہ تھا وہ طویل عرصہ تک ایوان اقتدار میں رہے مجھے ان دنوں گاہے اپنے ترک کلاس فیلوز کے ساتھ ترکیہ (ترکی) کے معاشی و سیاسی حالات بارے گفتگو کا موقع ملتا، صورتحال یہ تھی کہ ترکی کا لیرا لیر لیر تھا ناگفتہ بہ معاشی حالات کی وجہ سے سیاست کے میدان میں خزاں تھی اور موسم بہار کے دور دور تک آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے ان حالات میں ترک مخلص قیادت نے اپنے ملک کو سنوارنے کا علم بلند کیا اور یہ قیادت ہی عوام کیلئے امید کی کرن ثابت ہوئی جس نے ایک حکمت عملی کے تحت سکولر ازم کے غبارے سے ہوا نکالی اس کا اندازہ مجھے اس روز ہوا جب میں اپنے ترک کلاس فیلو کے ساتھ فیصل مسجد کے سبزہ زار پر بیٹھا حالات حاضرہ گفتگو کر رہا تھا میں نے اپنے ترک دوست سے کمال اتا ترک بارے استفسار کیا اس نے بڑے تیکھے لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا ،برادر !کمال اتا ترک ایسی شخصیت ہے جس نے ترک عوام کی سیاسی و ثقافتی اور تاریخی اقدار کو بری طرح پامال کیا اس نے سیکو لر ترکی کے نام پر ترک عوام سے ان کی پہچان چھینی ہے۔ ترک کلاس فیلواسماعیل حقی نے کمال اتا ترک بارے بین السطور بہت کچھ بتا دیا اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کردیا جائے گا اور خلافت عثمانیہ کے ورثاء کو ایک بار پھر ترک سرزمین پر عزت ملے گی۔ چشم فلک نے دیکھا کہ ایسا ہوا کس کو معلوم تھا کہ پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک کی دانشگاہوں میں زیر تعلیم نئی نسل دراصل حقیقی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ کام دھیرے دھیرے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ ہو رہا تھا وقت نے ثابت کیا نجم الدین کے دور حکومت سے رجب طیب اردوان تک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور دیگر ممالک میں ایسی ہی جا معات میں زیر تعلیم طلباء نے مخلص قیادت کو آگے بڑھانے میں ہراول دستہ کا کردار ادا کیا اور یہ بات ثابت کی کہ سیکولر نہیں مخلص قیادت ہی ملک کے مسائل حل کرسکتی ہے۔ تاریخ اس بارے میں ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ انقلاب راتوں رات کا کھیل نہیں بلکہ ایک جہد مسلسل ہے ایک بار مولانا فضل الرحمٰن خلیل سے ایک اہم موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی کہ ہماری گفتگو یمن سعودی تنازع تک جا پہنچی انہوں نے بتایا 90ء کی دہائی سے یمنی طلباء کیلئے ایرا نی جامعات کو'' موسٹ فیورٹ'' قرار دیا گیا ایرانی جامعات میں داخلہ کی ترغیب دی گئی ہر سال سیکڑوں یمنی طلباء ایرانی جامعات میں داخلہ لیتے جس کے نتیجہ میں ایران اور ایرانی نظریات کی حامی کمیونٹی کا وجود عمل میںآیا بعد میںایران کی حامی کیمیونٹی کو حوثی کے نام سے جانا اور پہچانا جا نے لگا وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا پاکستانی سیاست کا بڑا لمیہ یہ رہا ہے کہ یہاں ہمیشہ ایڈہاک ازم اور شارٹ کٹ کا دور دورہ ہی رہا ہے ہمیں تاریخ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹوسے عمران خان تک کوئی مستقل مزاج اور دور اندیش قیادت کا وجود نظر نہیں آتاکسی جگہ سیاست میں انتقام ، کسی جگہ انتشار اور کسی جگہ ذہنی خلفشار نظر آتا ہے،ملائشیا کے97سالہ مہاتیر محمد اور ترکی کے69 سالہ رجب طیب اردوان امت مسلمہ کے ہیرو ہیں نشیب و فراز ان کی زندگی کا بھی حصہ ہیں تاہم ان کی کامیاب سیاسی زندگی کا راز یہ ہے کہ وہ کبھی بھی اپنی جدوجہد کیمطلوبہ نتائج نہ برآمد ہونے کی وجہ سے مایوس نہیں ہوئے آج کی سیاسی قیادت اپنے مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی وجہ سے سیخ پا ہے کیونکہ انتقام، انتشار اور خلفشار انہیں وراثت میں ملے ہیں،24،25 سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد مہاتیر اقتدار سے الگ ہوئے چند سال قبل پھر برسر اقتدار آئے اور وزیر اعظم منتخب ہو ئے لیکن ا گلے پالیمانی انتخابات میں انہیں شکست ہوئی انھوں نے کسی پر دھاندلی کا الزام لگایا اور نہ ہی ہنگامہ آرائی کی بلکہ نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے اقتدار سے علیحدگی اختیار کرلی ، ترکیہ حالیہ انتخابات میں پہلے ٹرن میں طیب اردوان 50 فیصدسے زائد ووٹ نہ حاصل کر سکے انہیں کامیابی کیلئے انہیں جیت کیلئے ایک فیصد سے کم کی ووٹ درکار تھے دوبارہ صدارتی انتخابات منعقد ہوئے اور اردوان نے 50فیصد سے زائد ووٹ حاصل کئے اور صدر منتخب ہوئے یہ ہیں وہ زندہ مثالیں جن کو قائم کرنے کیلئے کوئی شارٹ کٹ نہیں بلکہ مسلسل محنت اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔