ایک ہنگامہ بپا ہے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، کسی کو شکوہ ہے اسکے خلاف انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے، کوئی اسے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے رہا ہے۔ کسی کو لگتا ہے کہ یہ سارا نظام دھڑام سے گر جائے گا۔ ہر کسی کا اپنا انداز ہے صورتحال کو دیکھنے کا۔ جو لوگ احتساب کے عمل کے متاثرین ہیں انکا خیال ہے کہ یہ سارا عمل ہمیشہ سے مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے، کوئی جنرل پرویز مشرف کے احتسابی عمل کی دلیل دیتا ہے تو کوئی سیف الرحمان جو کہ میاں نواز شریف کے زیر سایہ احتساب فرما رہے تھے کو اپنے حق پر ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے کہ کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکا۔ آصف زرداری گیارہ سالہ جیل کے بعد مردحر کے خطاب کے بعد اپنے آپ کو سرخرو سمجھ رہے ہیں اور انکے خیال میں اسکے بعد وہ ہر قسم کے احتساب سے مبرا ہو چکے ہیں۔ اسی طرح سے میاں نواز شریف اور انکے خاندان کے لوگ دلیل دیتے ہیں کہ انکا احتساب تو جنرل مشرف نے کیا لیکن کچھ ثابت نہیں ہو سکا اس لئے وہ بھی سمجھتے ہیں کہ اب ان سے کسی بھی بارے میں تفتیش کرنادر اصل سیاسی انتقام ہے۔ایک لحاظ سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی درست بات کرتے ہیں کہ احتساب سیاسی انتقام کے لئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ دونوں جماعتوں نے نوّے کی دہائی میں ایک دوسرے کے خلاف احتساب کے عمل کو سیاسی فائدے کے لئے استعمال کیا۔ پھر گزشتہ دس سالوں میںاحتساب کے نام پر عوام کی آنکھوں میںدھول جھونکتے رہے جس کو عمران خان مک مکا کہتے ہیں۔دونوں جماعتوں کو احتساب کاڈھونگ اس لئے رچانا پڑا کہ پاکستان تحریک انصاف کرپشن کے خلاف ایجنڈا لے کر نکلی اور اسکی پزیرائی ہونے لگی۔ دونوں جماعتوں کو خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں انکا نعرہ قبولیت نہ حاصل کر لے تو انہوں نے احتساب کے نام پر ایک ڈرامہ شروع کیا جو دس سال میں کسی انجام کو نہ پہنچ سکا۔جنرل مشرف نے میاں نواز شریف کے خلاف جو مقدمات بنائے انکو شریف خاندان کی جلا وطنی کے بعد غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔اسی طرح آصف زرداری اور دیگر جماعتوں، جس میںایم کیو ایم بھی شامل تھی کے قائدین کو قومی مفاہمتی آرڈیننس کے ذریعے ان مقدمات سے نجات دلا دی گئی۔ اگرچہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے این آر او کو ختم کر دیا اور کچھ مقدمات بحال بھی ہوئے جس میں بدنام زمانہ سوئس اکائونٹ کیس بھی تھا جس کا آصف زرداری سامنا کر رہے تھے بھی بحال ہوا۔ اس ایک کیس کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے کس طرح اپنے مقدمات کو عدلیہ کے چنگل سے نکالا اور تکنیکی نکات کا سہارا لے کر ان سے جان چھڑائی۔وہ مقدمات جو واقعی عدلیہ کے ذریعے منطقی انجام کو پہنچ سکتے تھے انکی یا تو پیروی نہیں کی گئی یا نیب اور متعلقہ اداروں کی ملی بھگت سے انکو دریا برد کر دیا گیا۔حدیبیہ کا مقدمہ ہو یا سوئس اکائونٹ کا۔ ایک ہی طریقے سے انکو ختم کیا گیا۔ در اصل جن مقدمات کا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو سامنا تھا ان کا کبھی فیئر ٹرائیل ہوا ہی نہیں، بلکہ قانونی تقاضوں کے مطابق ان مقدمات کو چلا یا ہی نہیں گیا۔ اس وقت تحریک انصاف کو یہ شکوہ تھا کہ حکمرانوں کے خلاف مقدمات کو صحیح نہیں چلایا جا رہا۔ اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو شکایت ہے کہ انکو فیئر ٹرائیل نہیں مل رہا اور انکے خلاف انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے۔حکومت کو دھمکیاںدی جارہی ہیں کہ اگر فلاں لیڈر کو پکڑا تو ملک میں طوفان آ جائے گا۔ دونوں اپوزیشن کی جماعتیں جب احتساب احتساب کھیل رہی تھیں تو انکو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ عمل واقعی اصل صورت میں شروع ہو جائے گا۔ اسکو پنامہ کے کھاتے میں ڈالیں یا اسکا کریڈٹ عمران خان کو دیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ عمل واقعی شروع ہو چکا ہے۔ یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا جبکہ سیاسی مخالفین کو ویسے ہی مقدمات میں گرفتار کر کے تفتیش کی جا رہی ہے لیکن یہ اعتراض بے بنیاد ہے کہ احتساب کو پہلے ادوار کی طرح انتقام کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسکی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ جن مقدمات میں ابھی تک گرفتاریاں ہوئی ہیں یا ہونے کا امکان ہے وہ موجودہ حکومت نے نہیں بنائے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے خلاف اثاثوں سے زائد جائیداد کا کیس ہو یا پھر آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف مقدمات ہوں وہ سارے سپریم کورٹ کے حکم کے تحت شروع ہوئے ہیں یا انکی نگرانی اعلیٰ عدلیہ کر رہی ہے۔تحریک انصاف کی حکومت نے صرف وہ کام کیا ہے جو پہلے کی دونوں حکومتیں نہیںکر رہی تھیں کہ نہ صرف قومی احتساب بیوروکے آزادانہ کام کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ حکومت کی طرف سے ہر قسم کی معاونت اور تحفظ کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ اسی طرح سے حکومت کے براہ راست ماتحت ادارے بھلے وہ ایف آئی اے ہو، اینٹی کرپشن کے صوبائی ادارے ہوں انکو بھی آزادانہ کام کرنے کا کہا ہے اور کسی قسم کی مداخلت نہ کرنے کا تاثر دیا جا رہا ہے۔اسی طرح سے اس سارے احتساب کے عمل کو اعلیٰ عدلیہ کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ جو لوگ کرپشن کے مقدمات میں سالہا سال فیصلے نہ ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے اور پھر اپنی باری پرپراسیکیوشن کے اداروں سے ملی بھگت کے ساتھ مقدمات ختم کر وا لیتے تھے، انکی دال اب نہیں گل رہی ہے۔ جہاں کہیں ایسا تاثر پایا جاتا ہے اعلیٰ عدلیہ اسکا فوراً نوٹس لیتی ہے ۔ جعلی بینک اکائونٹس کا مقدمہ اسکی زندہ مثال ہے۔ جس میں مقدمہ درج ہو چکا تھا اوربا اثر لوگوں کے خلاف کوئی ادارہ کارروائی کو تیار نہیں تھا، سپریم کورٹ نے اس پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی اور چند دنوں میں اسکا نتیجہ نکلنے والا ہے۔اسکے آثار اپوزیشن میںپچھلے چند دنوں میں پائی جانے والی شدید بے چینی اور دھمکیوں کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔