ہم مسلمان ہیں۔ پاکستان سے محبت رکھتے ہیں اور اسلام کے نام لیوا ہیں۔ پاکستان یا کسی بھی مسلمان ملک میں آزادی اظہار رائے کی بات کریں تو اس کی سو سے زائد تشریحات ملیں گئیں حالانکہ آزادی اظہار رائے ایک مقدس فرض ہے اور حضورﷺ سرور کائنات خاتم النبیین کی سنت سے بھی ثابت ہے آزادی اظہار رائے ایک ایسا مقدس فرض ہے جس کے لئے حضورﷺ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی حالانکہ حضورﷺ کو مکہ مکرمہ سے بے حد محبت تھی لیکن وہ آزادی سے عبادت اور دین اسلام کی تبلیغ مکہ مکرمہ میں نہیں کرسکتے تھے۔ کفار مکہ کی جانب سے سختیاں تھیں حضورﷺ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے کر چلے گئے۔ ہجرت کرلی اور آزادی سے دین کی تبلیغ و ترویج کی جس کی بدولت دنیا میں اسلام پھیلا ۔آج ہم مسلمان ملک میں جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے یہ بحث کررہے ہیں کہ آزادی اظہار رائے کیا ہوتی ہے ڈکٹیشن دی جاتی ہے کہ جو بتایا جارہا ہے ویسا کریں " جناب ارشاد عارف بہت محتاط انداز میں گفتگو کررہے تھے لیکن باڈی لینگویج یہ بتا رہی تھی جیسے وہ اپنے جذبات اور احساسات کو بہت کنٹرول کررہے تھے۔ انہوں نے جنرل ضیائالحق اور مارشل لاوں کے ادوار پر بھی روشنی ڈالی جنرل ضیاء الحق کے بارے میں کہا کہ انہوں نے سیاست میں ایسے لوگوں کو داخل کردیا جن سے پاکستان کی جان چھڑانی مشکل ہوگی۔ غیر جماعتی انتخابات اور الیکٹ ایبل نے ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا ۔حرام ان کے منہ لگ گیا ۔ایوب خان نے پہلا آئین اٹھا کر پھینک دیا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مانا کہ ان پڑھ، غیر پیشہ ور یا چند لفافہ صحافی بھی صحافت کے شعبہ میں آگئے لیکن جن صحافیوں نے ایک طویل جدوجہد کی، قربانیاں دیں ،کوڑے کھائے ہیں، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ملک میں جمہوریت کی بقاء اور انسانی حقوق کی پاسداری کی بات کی وہ بھی تو صحافی تھے۔ سیاست دان جب ڈر کر گھروں میں بیٹھ گئے یا جیل یا ملک سے بھاگ گئے تو صحافیوں نے سیاست دانوں کی بھی لڑائی لڑی اور ان کو میڈیا کے ذریعے زندہ رکھا۔ ان کا پیغام عوام تک پہنچایا ۔آج بھی اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو صحافی اس کے لئے آواز اٹھاتے ہیں۔ پھر یہ سیاست دان جب اقتدار کی کرسی پر متمکن ہوتے ہیں تو پہلا وار ہی میڈیا پر کرتے ہیں۔ ارشاد عارف نے ملک کی سیاسی اور معاشی ابتری پر کہا کہ 11 لاکھ افراد بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ ہوکر پچھلے سوا سال میں پاکستان چھوڑ چکے ہیں جبکہ نادرا ریکارڈ کے مطابق پانچ لاکھ افراد کے پاسپورٹ زیر التواء ہیں ۔کاروبار کی حالت یہ ہے کہ کارخانے بند ہورہے ہیں۔ ہنڈا، سوزوکی اور ٹیوٹا کے کارخانے مہینے میں پندرہ دن چلتے ہیں اور پندرہ دن بند رہتے ہیں۔ لوگ شہروں میں مہنگائی کی وجہ سے واپس گاوں کا رخ کر رہے ہیں چونکہ مکانوں کے کرایے، بجلی،گیس پیٹرول کی قیمتیں عام تنخواہ دار طبقے سے برداشت نہیں ہو رہی ہیں ۔ مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی واقع ہورہی ہے۔ ان حالات میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک کی معیشت سنبھل نہیں رہی ہے۔ عمران خان کی حکومت میں ساڑھے تین سال موج مستیاں کرنے والے ایک جھٹکے میں ہی اس کو چھوڑ کر چلے گئے جبکہ بعض افراد سختیاں بھی جھیل رہے ہیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہیں ۔پولیس 9 مئی کی آڑ میں عام معصوم شہریوں سے جان بخشی کے عوض لاکھوں روپے کما رہی ہے۔ آنے والے حالات بھی زیادہ حوصلہ افزا نہیں دکھائی دیتے لیکن ہمیں باہم اتحاد و اتفاق سے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ملک کی بہتری ، استحکام اور وسلامتی ہر بات مقدم رہنی چاہئے ۔اوورسیز پاکستانیوں کا اس سلسلے میں ایک واضح کردار ہے جو جاری رہنا چاہئے۔ اوورسیز پاکستانی ہمارے ملک کے سفیر ہیں۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے برطانیہ میں صدر تحسین گیلانی، تحریک کشمیر یوکے کے سینیئر نائب صدر چوہدری شریف، نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن کے سابق صدر امجد ملک نے پاکستان کی کشمیر پالیسی اور آزاد کشمیر کو جس طرح چلایا جارہا ہے اس پر اپنی برہمی کا اظہار کیا اور سخت سوالات کئیے جس پر ارشاد عارف کا کہنا تھا کشمیریوں کی بات ہمیشہ سنی جانی چاہئے اور محرومیوں کا بھی ازالہ ہونا چاہئے۔ وہ اپنے کالموں اور پروگراموں کے ذریعے ایسے ایشوز ہمیشہ اجاگر کرتے رہتے ہیں۔ آخر میں اپنی طرف سے اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں مجھے برطانیہ میں رہتے ہوئے 33 سال بیت گئے ہیں ۔پاکستان سے ایل ایل بی کرکے برطانیہ آیا تھا۔ ملک کی اب جو حالت ہے وہ کبھی پہلے نہیں تھی۔ عوام کا اعتماد جج ،جرنیل، جرنلسٹ ،بیورکریٹس، تاجر سیاست دان ،سفراء اور حکمران کھو چکے ہیں ،جس سے ملک کا بہت نقصان ہورہا ہے۔ ٭٭٭٭