یہ دوسرے خلیفہ راشد کے دور کا واقعہ ہے۔حکمران کلاس کی دو شخصیات باہم گفتگو میں مصروف تھیں۔اس اثناء میں ایک اور شخص وہاں آ گیا اور اس نے ان دونوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ذرا برہمی کے انداز میں کہا کہ یہ شخص میرا ملزم ہے، میں یہاں انصاف کی دہائی دیتا ہوں، وہاں موجود دونوں حضرات میں موجود نسبتاً طویل القامت شخص کے چہرے پر سختی آ گئی اور اس نے جلالی لہجے میں سامنے بیٹھے شخص سے کہا ’’اے ابو حسن کھڑے ہو جائو‘‘ ابو حسن کا چہرہ سرخ ہو گیا تاہم وہ خاموشی سے کھڑے ہو گئے۔ فریادی کو عرض کرنے کا حکم دیا گیا۔فریادی نے مقدمے کی تفصیل بتائی ملزم کو جواب دعویٰ کی اجازت دی گئی دعویٰ اور جواب دعویٰ کا سلسلہ چلا تو چند لمحوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا اور دعوے دار جھوٹا ثابت ہو گیا، طویل القامت شخص نے فریادی کو جانے اور ابو حسن کو بیٹھنے کا اشارہ کر دیا، فریادی رخصت ہوا تو ابو حسن بیٹھ گئے اور خوش گپیوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا،طویل القامت شخص نے ابوحسن سے پوچھا حضرت جب میں نے آپ سے کھڑا ہونے کے لئے کہا تو آپ کا رنگ سرخ ہو گیا تھا۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں آپ کو میری کیا بات بری لگی،ابو حسن نے تبسم فرمایا اور حلیم لہجے میں بولے امیر المومنین عربوں کی کنیت عزت اور ادب کے لئے بولی جاتی ہے،جب میرے خلاف مقدمہ دائر ہوا تو آپ نے مجھے ملزم سمجھنا چاہیے تھا۔آپ پر لازم تھا کہ آپ مجھے علیؓ کہہ کر پکارتے لیکن آپ نے مجھے ابو حسن کہا جس سے مجھے شک گزرا کہیں میری کنیت بلانے سے آپ کا انصاف مشکوک نہ ہو جائے اور فریادی یہ نہ سمجھ بیٹھے آپ نے میرے ساتھ رعایت برتی ہے‘‘ سیدنا فاروق اعظمؓ اٹھے اور حضرت ابو حسن کو گلے لگا لیا۔ جی ہاں یہ دونوں حضرت عمرؓ اور حضرت علی ؓ کرم اللہ وجہہ تھے، ذرا غور کیجیے اسلام کا نظام عدل کتنا سادہ کتنا شفاف اور کتنا فوری تھا اور اس میں کوئی بھی فریادی کسی بھی وقت کسی کے بھی خلاف کسی بھی عدالت میں پیش ہو سکتا تھا اور اس کا ملزم خواہ مولا علیؓ جیسے جلیل القدر صحابی ابو طالب کے فرزند‘رسول اللہ کے داماد ہی کیوں نہ ہوں اور وہ اس وقت خواہ امیر المومنین کے دسترخوان پر ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں۔ آپ دوسری جنگ عظیم کو دیکھیے یہ جنگ جرمنی اور برطانیہ کے درمیان لڑی گئی دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے سربراہ او ڈلف ہٹلر تھے اور برطانیہ کے وزیر اعظم سرونسٹن چرچل‘ یہ دونوں اپنے عہد کے بڑے لیڈر تھے لیکن دونوں کا فلسفہ مختلف تھا اوڈلف ہٹلر طاقت کو خدا سمجھتے تھے، ان کا خیال تھا کہ اگر بڑی فوج اسلحہ گولہ بارود ہو تو ہر طرح کے حالات سے نبٹا جا سکتا ہے، یہی قوت اور طاقت آپ کو بڑا لیڈر بناتی ہے جبکہ سرونسٹن چرچل نظام کے حامی تھے چرچل کا خیال تھا ملک‘ نظریات اور خیالات کا اصل طاقت نظام ہوتے ہیں چرچل کے دور کا ایک واقعہ دنیا کی تمام بڑی قانون کی کتابوں میں درج ہے اور ہم بار بار اسے دہراتے رہتے ہیں دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ شدید کساد بازاری‘ قلت اور ابتری کا شکار ہوا جس میں ملک میں لااینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہو گیا، اندرونی صورتحال کی اس درجہ ابتری کے بعد جب ان کے مشیر نے برطانیہ کے اس وزیر اعظم سے دریافت کیا کہ اب اس صورتحال میں ہم شکست سے دوچار نہ ہو جائیں۔ اس وقت چرچل نے بڑا خوبصورت جواب دیا تھا انہوں نے کہا جائو دیکھو کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں، اگر ہمارے جج اور عدالتیں قائم ہیں تو برطانیہ کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔1945ء میں ہٹلر کے زوال کے بعد چرچل کا دعویٰ سچ ہوا اور ثابت ہو گیا،ملکوں کو فوجیں توپیں بم اور میزائل نہیں بچایا کرتے ملک قانون کے ذریعے بنتے ہیں اور انہیں عدالت اور جج ہی قائم رکھتے ہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آپ نظام عدل کو سیدنا فاروق اعظمؓ جیسی جرات اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسی نظر نہ دے سکتے ہوں تو نہ دیں لیکن آپ اسے کم از کم امریکہ اور یورپ جیسی آزادی تو دیدیں یہ ممالک جہاں صدر و وزیر اعظم یا ملکہ یا کوئی کتنا طاقتور شخص اگر وہ جرم کرے گا تو وہ قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے اور اس کی جرات نہیں کہ وہ عدالتی حکم کو ماننے سے انکار کر دے آپ کسی کے ملک کے نظام کو کاپی کر لیں،آپ چین کی وہ فکر دیکھ لیں جس نے چینیوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا، آپ چینی عوام کی وہ غیرت لے آئیں، جس نے انہیں انہیں دنیا میں سر اٹھا کر جینے کی ہمت دی۔آپ ان سے وہ آنکھ لے آئیں جو کسی کے سامنے شرمندہ نہیں ہوتی آپ امریکیوں سے وہ فکر اور سوچ لے آئیں،جس کے سبب وہ ہر شعبے میں دنیا کے لیڈر بن گئے۔ آپ برطانیہ سے ان کی ہوشمندی ایمانداری اور اصول پسندی لے آئیں جس نے انہیں آئین اور قانون پر چلنا سکھایا۔ خدا کے واسطے کچھ تو کریں ورنہ انجام کا خود اندازہ کر لیں کہ ہم کہاں پہنچ گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں آپ پچھلے چند سال کی رپورٹیں منگوا کر دیکھ لیں آپ کو معلوم ہو گا کہ کراچی سے لے کر پشاور تک قبضہ گروپ اور مافیا لوگوں کی زمینوں جائیدادوں اور عمارتوں پر قبضہ کر رہا ہے کیوں؟ کیونکہ انہیں عدالت کا ڈر نہیں پورے ملک سے لوگ اغوا ہوتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں روپے دے کر رہا ہوتے ہیں اور کسی تھانے کسی اغوا کی ایف آئی آر کٹوانے کے لئے نجانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کیونکہ سچ پوچھیں تو ہمارے ملک میں قانون اور انصاف کا کوئی نظام موجود نہیں۔ آپ ملک کے ایک کونے سے دوسرے سرے تک سروے کر کے دیکھ لیں آپ کو ملک کا ہر شہری پریشان اور دکھی دکھائی دے گا۔ آپ کو ہر چہرے پر ہزاروں سوالات دکھائی دیں گے، ہم ان پریشانیوں ان دکھوں اور ان سوالوں میں اپنے بچوں کا کل دیکھ سکتے ہیں، میں آج اس ملک کے ہر پڑھے لکھے سمجھ دار با اختیار اور صاحب اقتدار شخص سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں مجھے آپ صرف اتنا بتا دیجیے کہ اگر یہ ملک نہ رہا تو کیا آپ کا پلاٹ آپ کا پلازہ آپ کی کوٹھی آپ کا ولا آپ کی سیکرٹری شپ آپ کی وزارت آپ کی یونٹ آپ کا رینک آپ کی وردی آپ کا اسکول آپ کی یونیورسٹی آپ کی دکان اور آپ کی کرسی بچے گی؟ کیا آپ کے بچے اس ملک میں رہ سکیں گے؟ اگر آپ اور آپ کی اولاد امریکہ اور یورپ میں سیٹل بھی ہو گئی تو آپ اپنے بزرگوں کی قبروں کا کیا کریں گے؟ کیا آپ انہیں بھی باہر لے جائیں گے؟ اگر نہیں تو پھر آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کیا آپ کے اندر ضمیر اور احساس نام کی کوئی چیز نہیں بچی کیا آپ کا کوئی خدا نہیں اور کیا آپ کے دل خوف خدا سے محروم ہو چکے ہیں۔