امریکی وزیر خارجہ مائک مومپیو پاکستان سے ہوتے ہوئے بھارت پہنچے جو دراصل ان کی منزل مقصود تھا۔ پاکستان آنا ان کی سفارتی مجبوری بھی ہوسکتی ہے یا ممکن ہے وہ علم الیقین سے زیادہ عین الیقین کے قائل ہوں اور اپنی گنہ گار آنکھوں سے نئے پاکستان کے اس سربراہ کا دیدار کرنا چاہتے ہوں جو عنفوان شباب سے ہی بدتمیز مشہور تھا۔ مجھے تو یہ بھی شک ہے کہ اس کی تصدیق کرنے انہیں صدر ٹرمپ نے ہی بھیجا ہوگا کہ جائیوذری دیکھ تو آئیو، سچ مچ بدتمیز ہے یا ہمیں ڈرانے کے لئے مشہور کردیا ہے نیز اگر سچ مچ ہے تو کیا مجھ سے بھی زیادہ ہے؟تو پومپیو آئے اور دیکھ کر چلے گئے۔ ماضی کی طرح نہ آنے سے پہلے کوئی دھول اڑی نہ جانے کے بعد دھوم مچی اور یہی تبدیلی ہے جسے نوٹ کرلیا گیا ہے۔انہیں بھارت جانا تھا اور چند اہم اعلانات کرنے تھے ایک بار پھر بھارت کو تھپکی دینی تھی اور اس کے سر پہ ہاتھ پھیر کر چین اور پاکستان کو حسب معمول آنکھیں دکھانی تھیں۔ جس کا جواب یوم دفاع کے موقع پہ وزیراعظم عمران خان نے یہ کہہ کر دیا کہ اب پاکستان کسی کی جنگ نہیں لڑے گا۔واضح رہے کہ یہ اعلان ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی موجودگی میں ببانگ دہل کیا گیا ساتھ ہی وضاحت کردی گئی کہ اب ملٹری اور سول قیادت میں کوئی تناو یا تفاوت موجود نہیں ہے۔ یہ ایک واضح پیغام تھا۔ رہی سہی کسر چین کے وزیر خارجہ کے تین روزہ دورے نے پوری کردی جو امریکی وزرائے خارجہ و دفاع کے بھارت دورے کے تناظر میں انتہائی اہم جوابی دورہ تھا۔ مائک پومپیو کے مختصر اور ہنگامی دورہ پاکستان کے جواب میں وانگ ای کا تین روزہ دورہ اس بات کا اشارہ تھا کہ یہ ایک دوست کی دوسرے دوست کے گھر فراغت کے ساتھ آمد ہے جس کا کھلے دل اور بانہوں کے ساتھ استقبال کیا گیا ہے اور جسے گھر واپسی یا کہیں اور جانے کی جلدی نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین اس وقت بھی پاکستان کے ساتھ کھڑاتھا جب پاکستان امریکی کولیشن سپورٹ کے ساتھ دہشت گردی کی جنگ میں اس کا ہراول دستہ بنا ہوا تھا۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ جہاں بھارت روس کا اتحادی اور اس کے دفاعی ساز و سامان کا سب سے بڑا خریدار تھا اب امریکہ کا گاہک بن گیا ہے۔ جبکہ ہم نے نہایت خاموشی سے دفاعی سامان کی خریداری امریکہ کی بجائے چین اور روس کے ساتھ شروع کردی ہے اور اب تقریبا ستر فیصد دفاعی اسباب ان دو ممالک سے مہیا کئے جاتے ہیں۔ پاکستان نے روس کے ساتھ چار سال قبل دفاعی معاہدہ بھی کیا اور دو سال قبل دونوں ممالک نے تاریخ میں پہلی بار مشترکہ عسکری مشقیں بھی کیں۔امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے ساتھ ٹو پلس ٹو ملاقات میںا سے مواصلاتی موافقت و سلامتی کا وہ معاہدہ بھی کرنا پڑا ہے جس پہ عرصے سے اس کے تحفظات تھے۔اس کا خیال تھا کہ اس معاہدے سے بھارت کی انٹیلی جنس معلومات تک امریکہ کی رسائی ہوجائے گی جو کہ اب ہوجائے گی جبکہ روس پہ پابندیوں کے بعد بھارت اس کے ساتھ دفاعی تجارت کی صورت میں ہر وقت امریکی پابندیوں کے خطرے سے دو چار رہے گا۔اسی خدشے کو ٹالنے کے لئے اسے روس سے ایس 400 میزائل سسٹم خریدنے کے بعد امریکہ سے مواصلاتی موافقت کا معاہدہ کرنا پڑا ہے۔یہی رعایت اس نے ایران سے تیل خریدنے کے لئے حاصل کی ہے کیونکہ غالبا چین کے بعد وہ ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس کے لئے فوری طور پہ یہ تجارت بند کرنا ممکن ہے جبکہ اسی سال جولائی میں اس نے ایرانی تیل کی درامد میں پچاس گنا اضافہ بھی کردیا تھا۔ بھارت کو لیکن علم ہے کہ یہ تجارت زیادہ عرصے جاری نہیں رہے گی اور اسے تیل کی درامد کے لئے دیگر ممالک کی طرف دیکھنا ہوگا۔ اس طرح ایران اپنے ایک بڑے گاہک سے محروم ہوجائے گا اس کے ساتھ ہی روس کے ساتھ بھارت کے دفاعی معاہدے بھی کم ہوتے جائیں گے جو اب تک تقریبا ستر فیصد تک ہوا کرتے تھے۔بھارت کی یہ بھی کوشش ہے کہ اسے نیوکلیر سپلائیر گروپ میں شمولیت حاصل ہوجائے جس کی مخالفت چین پاکستان کی شمولیت کی شرط کی بنیاد پہ کرتا رہا ہے۔2010ء میں بھارت نے تاریخ کا سب بڑا دفاعی معاہدہ روس کے ساتھ کیا تھا جس کی مالیت تیس بلین ڈالر تھی۔ان ہی معاہدوں میں ایک روس سے اس کا جدید ترین گلوناس پوزینشنگ سسٹم کی خریداری کا معاہدہ تھا ۔ یہ ملٹی گریڈ نیوی گیشن سگنلز کا وہ سسٹم تھا جو اسے اپنے جی پی ایس سسٹم سے فوجی درجے کے سگنلز تک رسائی کے لئے درکار تھا۔اس وقت چونکہ بھارت کا روس کے ساتھ ہنی مون چل رہا تھا اور پاکستان امریکی کولیشن سپورٹ فنڈ کے ہلکورے لینے میں مصروف تھا ، بھارت امریکہ کے کمیونیکیشن انٹرپورٹیبلٹی اینڈ سیکوریٹی ایگریمنٹ میں شامل نہیں ہوسکا۔ یہی معاہدہ اب حالیہ دورے میںا س نے امریکہ کے ساتھ کر لیا ہے جسے اب COMCASA کہا جا رہا ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ بھارت نے کس طرح ان چند سالوں میں امریکی آنکھ کا تارہ بننے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ جس میں اس کی کوششوں سے زیادہ چین کی پاکستان میں سی پیک کی صورت میں سرمایہ کاری کا زیادہ ہاتھ ہے جو ایک طرف پاکستان کو امریکی امداد کی محتاجی سے نکالنے میں معاون ہے تو دوسری طرف بھارت کے لئے پریشان کن ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ جس کا سی پیک ایک چھوٹا سا حصہ ہے ، اگر پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو دنیا میں امریکی بالادستی ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔یہی وہ پریشانی ہے جو امریکہ کو بھارت کے سر پہ ہاتھ رکھنے پہ اس قدرمجبور کرتی ہے کہ اسے مذکرات کے دوران برسوں سے رائج اصطلاحات تک تبدیل کرنے پہ مجبور کردیتی ہے۔ آج تک بھارت اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے دوران اس خطے کے لیے ایشیا پیسیفک کی اصطلاح استعمال کی جاتی رہی لیکن صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آتے ہی یہ اصطلاح انڈو پیسفیک میں تبدیل ہوگئی جو اس بات کا اشارہ تھا کہ اب امریکہ کا خطے میں واحد منظور نظر کون ہوگا۔اصطلاحات کا یہ کھیل صدر ٹرمپ نے ایران اورسعودی عرب کے متعلق پالیسی بیان میں کھیلا جب انہوں نے خلیج فارس کو خلیج عرب کے نام سے پکارا اور اسکے فوراً بعدامریکہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پہ نکل گیا اور ایران پہ نئی تجارتی پابندیاں عائد کردیں اس لئے اصطلاحات کی یہ تبدیلی قابل توجہ ہے۔یہ معاملہ بھارت سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ امریکہ نے اپنے پیار بھرے ہاتھ کس کی مخاصمت میں بھارت کے سرپہ رکھے ہیں اور وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے ۔اسی لئے روس کے ساتھ مکمل طور پہ معاہدے منسوخ کرنا یا ایران کے ساتھ تیل کی درامد کی فوری بندش میں اس نے رعایت حاصل کرلی ہے۔ عین اس وقت جب چین کے ساتھ امریکہ کی تجارتی جنگ جاری ہے ، ان ٹو پلس ٹو مذاکرات میںامریکہ بھارت پینگیں بڑھ رہی ہیں اور ادھر چین کے وزیر خارجہ واضح طور پہ کسی تیسرے ملک کو بھی سی پیک میں شمولیت کی دعوت دے رہے ہیں جو ایران ترکی روس اور سعودی عرب میں سے کوئی بھی ہوسکتا ہے تو یہ کہنا کتنا آسان ہوگیا ہے کہ پاکستان اور بھارت نے ڈرامائی طور پہ اپنے بلاک تبدیل کرلئے ہیں۔یعنی اب پاکستان روس ایران اور چین ایک طرف ہیں تو امریکہ اور بھارت ایک طرف ہوگئے ہیں۔ اس بلاک میں چین پاکستان کے لئے ہمیشہ سے مستقل دوست کی حیثیت رکھتا ہے اور دیکھا جائے تو بلاک کی اس ڈرامائی تبدیلی میں بھی چین کا ہی ہاتھ ہے۔بھارت کو غور کرنا ہوگا کہ اس خطے میں اسے گزارا بہرحال دوسرے بلاک کے ممالک کے ساتھ کرنا ہے اور امریکی ہنی مون زیادہ عرصے جاری نہیں رہتا یہ اس کی تاریخ ہے لیکن خطے میں چین کی ہم سری اور پاکستان اور دیگر چھوٹے ممالک پہ اپنی بالا دستی کا خواب اسے زیادہ دور تک کچھ دیکھنے نہیں دے رہا۔ اس سارے قصے میں پاکستان کے لئے خوش آئند بات یہ ہے کہ چین کے وزیر خارجہ نے اپنے حالیہ دورے میں سی پیک سے متعلق پاکستان کے تحفظات پہ کھل کر بات کی ہے اور عمران خان نے سی پیک معاہدوں پہ نظر ثانی کرنے اور انہیں ازسر نو ترتیب دینے کا عندیہ دیا ہے۔ ان خدشات کا اظہار عرصے سے ہوتا رہا ہے جن میں سے کچھ درست بھی ہیں۔ وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی ٹیم کے ممبر عبد الرزاق اس پر ماضی میں بھی تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور اب بھی وہ مصر ہیں کہ چینی کمپنیوں کو ٹیکس اور دیگر اخراجات کی مد میں ناجائز چھوٹ اور پاکستانی کمپنیوں پہ ان کی بالادستی کے معاملات پہ غور کیا جائے ۔ چین جیسے دوست کے سی پیک جیسے منصوبے پہ جسے گیم چینجر کہا جاتا ہے اگر پاکستان پورے وقار کے ساتھ اپنے مفادات پہ بات کرتا ہے تو یقینا یہ گیم چینجر ہے۔