ملک کی سیاست افواہوں کی زد میں رہتی ہے۔ الیکشن میںدھاندلی کی افواہیں۔ حکومت کے اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے رخصت ہوجانے کی سدا بہار قیاس آرائیاں۔ریاستی اداروں‘ مقتدرہ کی جانب سے ماورائے آئین اقدام کی سرگوشیاں۔چونکہ ملک میں ماضی میں یہ سب کام ہوئے اس لیے عام لوگ مصدقہ خبروں سے زیادہ افواہوں پر کان دھرتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے وطن عزیز میں افواہیں سچی اور خبریں جھوٹی ثابت ہوتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاستدانوں کا روزگار اور میڈیا کے ایک حصّہ کا کاروبار ایسی غیر مصدقہ گپ شپ کے سہارے چل رہا ہے۔ سوشل میڈیا تو خیر سے بے پَر کی اُڑانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔یُو ٹیوبرز کو اس فن میں یدِطولیٰ ہے۔ وہ اپنے وی لاگ کے تھمب نیلز(سُرخیاں) ایسے نکالتے ہیں کہ ایک نظر ڈالنے والے کا اُوپر کا سانس اُوپر اور نیچے کا نیچے رہ جائے۔ایسی لمبی چھوڑتے ہیں جو پکڑی نہ جائے۔اُن کا د س پندرہ منٹ طویل بیان سننے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صاحب بھی کم و بیش اتنے ہی کم بے خبر اور بے یقینی کا شکار ہیں جتنا سامع۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وی لاگر طبقہ میں جو وزیراعظم عمران خان کے حامی ہیں انکے سامعین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ وہ بہت مقبول ہیں۔اگر عمران خان واقعی نامقبول ہوگئے ہوتے تو انکے حق میں پروپیگنڈہ کرنے والے اتنے ہردلعزیز نہ ہوتے۔ حکومت کے خلاف ڈھنڈورا پیٹنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ انکا مال بھی خوب فروخت ہورہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں سیاسی تقسیم بہت شدید ہے۔ عوام نواز شریف اور عمران خان کے حامیوں میں بٹے ہوئے اور اپنی اپنی جگہ مورچہ زن ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا اتنا چرچا کیا گیا جو زمانۂ حال میں شائد کسی اور کے لیے نہیں ہُوا۔ اپوزیشن کا مقصد صوبہ میں بے یقینی کی فضا پیدا کرنا تھا تاکہ افسر شاہی اور سرکاری اہلکار بزدار حکومت کے احکامات پر عمل نہ کرے یا سستی دکھائے۔ یہ غرض خاصی حد تک پوری ہوئی۔ کم سے کم ڈیڑھ برس تک پنجاب میں حکومت کی عملداری کمزور رہی۔ انتظامیہ کو یقین نہیں تھا کہ بزدار زیادہ عرصہ تک وزارتِ اعلی کی عہدہ پر رہیں گے تو انکا حکم کیوں مانیں۔ پہلے چرچا کیا گیا کہ تحریک انصاف کے مختلف لیڈروں کو بزدار کی جگہ وزیراعلیٰ بنانے کے لیے انٹرویو کیے جارہے ہیں۔ سب باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ سوا تین سال ہوگئے سردار عثمان بزدار کی کرسی مستحکم ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ شہباز شریف پنجاب میں پیپلزپارٹی سے ملکر تبدیلی لانے پر آمادہ ہیں لیکن نواز شریف نہیں مانتے۔ وہ پنجاب کا اقتدار حمزہ شہباز کو دینے پر تیار نہیں۔ اسکا حقدار صرف اپنی بیٹی مریم کو سمجھتے ہیں۔ عمران خان کو وزیراعظم بنے بمشکل ایک برس ہوا تھا تو بعض جغادری صحافیوں نے ان کو گھر بھیجنا شروع کردیا تھا۔ کالم لکھے کہ انکو لانے والے اُن سے خوش نہیں۔ ان کی جگہ کسی اورشخص کو وزیراعظم لایا جائے گا۔بین السطور مفہوم یہ تھا کہ عمران خان عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوئے بلکہ انہیںریاستی اداروں نے وزیراعظم بنایا ہے اوروہی انکو فارغ کرنا چاہتے ہیں۔ اس چرچا کو عام کیے دوبرس بیت گئے لیکن امید بَر نہیں آئی۔ جیسے نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے ایک سال بعد سے ہمارے کپتان اعلان کرنے لگے تھے کہ امپائر کی انگلی اُٹھنے والی ہے۔آجکل میڈیا چند ماہ تک بڑی سیاسی تبدیلی آنے کے دعوے کرر ہاہے۔ کسی کا خیال ہے تبدیلی انکل سام کی مدد سے آئے گی۔ بعض ستم ظریفوں کا خیال ہے پورا نظام تبدیل کرکے رکھ دیا جائے گا۔ آزاد عدلیہ اور میڈیا کے ہوتے ہوئے یہ بات سوچنے کے لیے بڑا شاعرانہ تخیل درکار ہے۔ کوئی سمجھتا ہے مسلم لیگ(ن) اور اسکی چند اتحادی جماعتوں کے ارکان اسمبلیوں سے ایک ساتھ استعفے دے دیں گے اور اتنی زیادہ سیٹوں پرضمنی الیکشن کروانا ممکن نہیں ہوگا اس لیے عمران خان کو نئے جنرل الیکشن کااعلان کرنا پڑے گا۔ اگر یہی طریقہ طے پاتا ہے تو آئندہ بھی کوئی اسمبلی مدّت پوری نہیں کرسکے گی۔ ہر اپوزیشن جماعت حکمران پارٹی کو مڈٹرم انتخابات پر مجبور کرنے کیلئے پارلیمان سے مستعفی ہوجایا کرے گی۔ دوسری طرف‘ پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ نے واضح کردیا ہے کہ پیپلزپارٹی اسمبلیوں سے استعفے نہیں دے گی۔ تھیوری پیش کی جارہی ہے کہ جلد مسلم لیگ(ن) اور مولانا فضل الرحمن اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے جس سے حکومت مفلوج ہو جائے گی اور نئے عام انتخابات کا مطالبہ ماننے پر مجبور ہوجائے گی۔ نواز شریف کی حکومت کے خلاف عمران خان نے مسلسل چند ماہ تک دھرنا دیا تھا لیکن مسلم لیگ(ن) کی حکومت نہیں گراسکے تھے۔ اب یہ طریقہ کیسے کامیاب ہوسکتا ہے؟ حکومت کی جلد رخصتی کی افواہ پھیلانے کے کئی فائدے ہیں۔ لوگوں کی توجہ ان باتوں کو پھیلانے والے کی طرف رہتی ہے۔ سیاسی لوگ ہوں یا میڈیا۔ حکومت کی ساکھ کمزور ہوتی ہے۔ اپوزیشن کے حامی اُمید سے رہتے ہیں کہ جلد موجودہ حکمران چلاجائے گا اور ہمارے لیڈر کی حکومت آجائے گی۔ دولتمند ‘ ٹھیکیدار اور بزنس مین اپوزیشن کو مال لگانے سے ہاتھ نہیں روکتے۔ اپوزیشن ثبوت کے بغیر حکومت پر کوئی الزام لگاتی ہے یا مبالغہ آمیزی کرتی ہے تو اسکا مطلب مخالف پارٹی کو بدنام کرنا اور اپنے حامیوں کو پروپیگنڈے کا مواد فراہم کرنا ہوتا ہے۔سیاسی کارکنوں کو ایک بیانیہ مل جاتا ہے جس کی مدد سے سماجی محفلوں میں مخالفین کے دانت کھٹے کرسکیں۔ افواہوں کو فروغ دینے میں میڈیا کے ایک حصّہ کا اپنا مفاد ہے۔ سنسنی خیزی اسکی غذا ہے۔ جمہوریت اور آزاد میڈیا ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا میں بھی ہیں۔ وہاں حکومت پر شدید تنقید کی جاتی ہے۔ اپوزیشن حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں لیتی ہے۔ لیکن حکومت کومدت سے پہلے گھر بھیجنے یا جلد عام انتخابات کی باتیں نہیں کی جاتیں۔ اس لیے بھارت میںسیاسی استحکام ہے۔پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ اسکافائدہ وہاں معاشی ترقی کی صورت میں نکلا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے جمہوریت اور آزادی ٔاظہار کا مطلب مسلسل بے یقینی کی فضا قائم رکھنا سمجھ لیا ہے۔ یہ کشتی ہچکولے کھاتی رہے گی تو آگے کیسے بڑھے گی؟