کوئٹہ،لورالائی،شیخوپورہ (سٹاف رپورٹر،نامہ نگار،ڈسٹرکٹ رپورٹر، نمائندگان 92 نیوز) پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہمیں بتایا گیا کہ دہشتگردوں کی کمرتوڑدی گئی ہے لیکن سانحہ مستونگ نے بہت سے سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر پورے ملک میں بہت کم عمل ہوا ہے ، ایسے لگتا ہے کہ وہ ایک کاغذی منصوبہ تھا۔اب الیکشن خوف کے ماحول میں لڑے جا رہے ہیں، تاہم انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی ہر کوشش ناکام بنادی جائیگی۔ملک میں الیکشن ہونگے اورسکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانا ہو گا۔ حکومت سکیورٹی کے معاملہ پر اپنا بہترین کردار ادا کرے ۔گزشتہ روز کوئٹہ میں سانحہ مستونگ میں شہید ہونیوالے بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما نوابزادہ سراج رئیسانی کے گھر جاکر انکے اہلخانہ سے تعزیت و فاتحہ خوانی کے بعد میڈیا سے گفتگو اورمقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے مزیدکہا کہ خیبرپختونخوا سے لیکر بلوچستان تک دہشتگردی کے واقعات انتہائی افسوسناک ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران ملک میں کہیں بھی دہشتگردی کے واقعات نہیں ہونے چاہئیں۔ انتخابی ماحول میں سکیورٹی اولین ترجیح ہونی چاہئے لیکن الیکشن سے پہلے ہی افسوسناک واقعات وقوع پذیر ہو گئے ہیں۔ ہم دہشتگردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ عراق اور افغانستان میں بھی ایسے ہی حالات میں الیکشن ہوئے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہوسکتے ۔کالعدم تنظیموں کی الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ہے ، نیشنل ایکشن پلان کو وسیع کرنا پڑے گا کیونکہ اگر ہم انتہاپسندی اور دہشتگردی کامقابلہ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں یہ کرنا پڑے گا۔بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کی سکیورٹی کے حوالے سے شکایات ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کی بہادر عوام 25جولائی کو اپنا ووٹ ہرصورت ڈالیں گے ، اپنی بہترین رائے کا استعمال کرینگے اورووٹ سے دہشتگردوں کو شکست دینگے ۔ انتظامیہ کو سکیورٹی فراہمی میں کوئی کوتاہی نہیں برتنی چاہئے ۔ہمیں دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ہم سانحہ مستونگ کے تمام شہدا کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ہمارا شہباز شریف اور عمران خان کیساتھ نظریاتی اختلاف ہے ، انتخابات کے بعد اگر کسی جماعت کیساتھ اتحاد کرنا پڑا تو دیکھیں گے کہ کون سی پارٹی ہمارے منشور پر عملدرآمد کرا سکتی ہے ۔عمران خان دوسروں کے بارے میں بہت باتیں کرتے ہیں، لیکن عوام اب باتوں پر نہیں چلتے ۔ عمران خان ہر دن نئی چیز کہتے ہیں، انکے یوٹرنز کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، خیبرپختونخوامیں کرپشن اور دہشتگردی کے خاتمہ کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن ایسانہیں ہوا ۔ احتساب کا قانون سب کیلئے یکساں ہونا چاہئے اور پیپلز پارٹی پہلے بھی احتساب کی بات کرچکی ہے ۔ن لیگ نے ہمیشہ دھوکہ دیا، این ایف سی ایوارڈ پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا اور نیا این ایف سی ایوارڈ بھی نہیں دیا گیا۔علاوہ ازیں بلاول نے لورالائی میں انتخابی جلسہ سے بذریعہ ہولو گرام خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ بلوچستان کے زخم بہت زیادہ ہیں ،آمروں نے اس صوبہ کے عوام کو بہت زیادہ دکھ دیئے ہیں۔ بلوچستان ملک کے آدھے حصہ پر مشتمل ہے لیکن یہاں کے عوام غربت اور دہشتگردی کا شکار ہیں،صاف پانی ،روزگار، تعلیم، صحت اور زندگی کے دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ صوبہ اور مرکز میں نواز شریف کی حکومت رہی آج وہ ہی ملک کے تمام مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ سی پیک عوام کی ترقی کا میگا پراجیکٹ ہے لیکن یہ بلوچستان کے بجائے صرف لاہور میں نظر آرہا ہے ۔ ہم حکومت میں اکر تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل کمیشن بنا ئینگے جوکہ صوبے میں امن اور معاشی ترقی کیلئے کام کریگا۔ نفرت،تعصبات اور علاقائی سیاست ہمارے لئے زہر قاتل ہے ، جو یہ سیاست کر رہے ہیں وہ ملک کی بنیادوں کو کمزور کررہے ہیں۔بلاول آج لاہور سے بذریعہ روڈ لالہ موسیٰ جائینگے ، راستہ میں پچاس سے زائد مقامات پر پارٹی امیدوار اور کارکن انکا استقبال کرینگے ۔ حلقہ این اے 121 شیخوپورہ کے امیدوار سیٹھ غلام رسول اور پی پی 140 کے امیدوار ندیم عباس کاظمی شاہدرہ چوک میں ، این اے 120 ، این اے 119 ،پی پی 135 ،پی پی 137 پی پی 138 ،پی پی 139 اور پی پی 142 کے امیدوار فیروزوالہ اورمرید کے میں بلاول کا استقبال کرینگے جبکہ کامونکی ،موڑ ایمن آباد اور گوجرانوالہ کے علاقوں میں بھی پی پی امیدوار استقبال کرینگے ۔شیخوپورہ سے بڑا قافلہ آج دوپہر ندیم عباس اور سیٹھ غلام رسول کی قیادت میں شاہدرہ چوک روانہ ہوگا ۔علاوہ ازیں بلاول نے اٹک کے علاقہ پنڈی گھیب اورڈھرنال میں سردار سلیم حیدر خان اور حاجی محمد اختر کیساتھ انتخابی ریلی سے خطاب میں کہا کہ چند سازشی عناصر نے پیپلز پارٹی کو عوام سے دور کرنے کی کوشش کی مگر وہ کبھی کامیاب نہیں ہونگے ۔ ن لیگ اور تحریک انصاف ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ شوباز شریف اپنے بھائی نواز شریف سے زیادہ ظالم اور آمر ہے ۔ ن لیگ کی سیاست جان لینے کی جبکہ ہماری سیاست جان دینے کی ہے ۔ یو ٹرن خان نفرت کی سیاست جبکہ ہم محبت کی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں ۔