فروری کی یہ صبح کتنی غمناک نکلی جب علامہ عبدالستار عاصم نے وٹس ایپ پہ اطلاع دی کہ شاعر‘ ڈرامہ نگار اور چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف امجد اسلام امجد اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور ان کی روح اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئی۔زندگی وقتی حقیقت ہے‘ یہ الگ بات کہ ہم اسے ایک مستقل حقیقت سمجھتے ہیں‘ جیسے آئے ہیں، اس دنیا میں تو ہمیشہ رہیں گے اور بلاوا کبھی آئے گا نہیں۔ہاں ایسا ہے تو اس لئے ہے کہ غفلت اور بے خبری کا پردہ آنکھوں پہ تنا رہے ورنہ آدمی کا جینا محال ہو جائے۔ امجد اسلام امجد جب تک جیتے رہے‘ بڑی بھرپور زندگی گزارتے رہے، فنون لطیفہ سے اپنا رشتہ ناتا مستحکم رکھا اور ذرائع ابلاغ میں خصوصاً ٹی وی اور اخبار پہ ایک زمانے تک چھائے رہے۔انہیں بہ حیثیت ڈرامہ نگار اور ایک خوش کلام شاعر بہت مقبولیت اور ہر دلعزیزی ملی، اس کے باوجود کہ انہوں نے ایک عرصے سے ڈرامہ لکھنا ترک کر دیا تھا۔ایک ملاقات میں اس خاکسار نے ان سے پوچھا تھا کہ وہ اب ڈرامے کیوں نہیں لکھتے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ کس کے لئے لکھوں؟ ڈرامے کے فن پر اور چینلوں پر جو لوگ چھا گئے ہیں اور جیسے ڈرامے اب لکھے جا رہے ہیں، اس میں ہم جیسے ڈرامہ نگاروں کی اب گنجائش ہی کہاں ہے۔ دیکھیں نا میں ہی نہیں حسینہ معین‘ بجیا اور دوسرے منجھے ہوئے ڈرامہ نگار بھی ان چینلوں کے لئے ڈرامے نہیں لکھتے۔ڈائجسٹ کے لئے افسانے لکھنے والیاں ہی اب ڈرامے لکھ رہی ہیں اور چینلوں کو ہم جیسے ڈرامہ نگاروں کی اب ضرورت بھی نہیں رہی۔ان کا یہ جواب سن کر میں چپ رہا میں سوچتا رہا ’’وارث‘‘ دہلیز‘ سمندر اور رات جیسے ڈرامہ سیریلیز لکھنے والے امجد اسلام امجد کا ڈرامہ نہ لکھنا ایک تہذیبی نقصان ہے۔ایک ایسا نقصان اور خسارہ جس کی کسی اور طرح تلافی کی ہی نہیں جا سکتی۔ لیکن پھر خیال آیا کہ اصل میں قدرت ہر آدمی سے ایک مقررہ مدت تک کام لیتی ہے اور اس کام کے عوض اسے انعام و اکرام شہرت و ہردلعزیزی سب کچھ عطا کرتی ہے اور پھر وہ وقت جب گزر جاتا ہے تو آدمی رفتہ رفتہ گوشئہ گمنامی میں چلا جاتا ہے ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا‘۔ کی آدمی تصویر بن جاتا ہے۔ بے شک امجد اسلام امجد نے جو کچھ لکھا اسے بہت پذیرائی ملی، سرکار دربار نے بھی انہیں سراہنے میں بخل سے کام نہیں لیا تمغۂ حسن کارکرگدی تمغۂ امتیاز اور ستارہ امتیاز جیسے تمغے ان کے فن کے ماتھے کا جھومر بنے۔ایک کثیر التصانیف مصنف کی حیثیت سے بھی سارا ملک یا کم سے کم تعلیم یافتہ طبقہ ان کے نام اور کام سے بخوبی واقف تھا۔وہ پابندی سے ایک اخبار میں کالم بھی لکھا کرتے تھے، ان کی رومانی شاعری نئی نسل میں بہت مقبول تھی۔کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لڑکے اور لڑکیاں ان کی رومانی نظموں پہ ایسے ہی ٹوٹتے تھے جیسے شہد کی مکھیاں پھولوں پہ ٹوٹتی ہیں اور ان کا رس چوس کر اپنے شہد کا چھتا بناتی ہیں۔ امجد اسلام امجد 4اگست 1944ء کو لاہور میں پیدا ہوئے اور زندگی ساری اسی زندہ دلان لاہور کے درمیان گزاری پنجاب یونیورسٹی سے انہوں نے 1967ء میں اردو ادب میں ماسٹرز کیا اور اگلے ہی برس ایم اے او کالج میں اردو کے استاد مقرر ہوئے، جن دنوں لاہور کا پاک ٹی ہائوس ادیبوں اور شاعروں کا مستقل ٹھکانہ ہوتا تھا، مجھے یاد ہے وہیں میری پہلی ملاقات امجد اسلام امجد مرحوم سے ہوئی تھی، میں کراچی یونیورسٹی میں صحافت کا طالب علم تھا اور یونین کے رسالے کا ایڈیٹر اور اسی حیثیت میں لاہور کے ادیبوں کی نگارشات وصول کرنے اس شہر کی مسافرت اختیار کی تھی۔وہ رات آج بھی آنکھوں میں روشن ہے جب پاک ٹی ہائوس میں داخل ہوا تو یہ کیفے شاعروں اور ادیبوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، وہیں ایک میز پہ امجد اسلام امجد چند دوسرے ادیبوں کے ساتھ براجمان تھے۔بہت محبت سے ملے اور میری فرمائش پہ اپنی ایک غزل اسی وقت لکھ کر عطا کی اس وضاحت کے ساتھ کہ یہ میرا تازہ کلام ہے اس غزل کا مطلع تھا۔ دل کے دریا کو تو ایک روز اترجانا ہے اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے اس طرح ان سے ایک تعلق محبت اور بھائی چارگی کا قائم ہو گیا۔آخری بار ان سے گفتگو چند مہینے پہلے فون پہ ہوئی انہیں میں نے اپنی نظموں کی کتاب ’’مہربان اللہ کے لئے نظمیں‘‘ بھیجی تھی۔اسے پڑھ کر انہوں نے شکوے کے لئے مجھے فون کیا، میں نے انہیں بتایا کہ اخبار میں ان کا کالم میری نظروں سے گزرتا رہتا ہے اور میری معلومات میں اضافے کا باعث ہوتا ہے، بہت عرصہ پہلے کی بات ہے امجد اسلام امجد اپنے دیرینہ یارغار عطاء الحق قاسمی کے ہمراہ اس زمانے میں کراچی آئے تھے، جب ان کا مقبول ڈرامہ سیریل وارث ٹی وی پہ چل رہا تھا اور اس نے پسندیدگی کے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔عطاء الحق قاسمی کے ادبی رسالے معاصر کی کراچی میں تقریب رونمائی تھی جو برادر مکرم سجاد میر کے دفتر تعبیر میں ہوئی تھی۔ڈان کے ایڈیٹر احمد علی خان ان کی اہلیہ ہاجرہ مسرور اور دیگر زعمائے ادب اس تقریب میں شریک تھے۔میں جسارت سے وابستہ تھا وہیں میں نے امجد صاحب سے وارث کی بابت ایک انٹرویو کیا تھا۔غالباً یہ پہلا ڈرامہ سیریل تھا جس نے ٹی وی ڈراموں میں منفرد ہی نہیں تھا رجحان ساز بھی تھا بہت عرصے بعد ایک بار امجد اور عطا کراچی اس وقت آئے جب امجد صاحب کا سفرنامہ چھپا وہ اس کی تقریب رونمائی آرٹس کونسل میں کرنا چاہتے تھے، ان کی فرمائش پر میں نے بھی اس سفر نامے پر تقریب میں مضمون پڑھا اور یہ کہا کہ امجد ارو عطا میں ایسی دوستی ہے کہ جو کام امجد کرتے ہیں وہ عطا بھی ضرور کرتے ہیں۔ مثلاً دونوں ہی شاعری کرتے ہیں ایک نے ڈرامے لکھے تو دوسرے نے بھی اس میں اپنی ٹانگ اڑائی۔ایک نے سفرنامہ اور کالم لکھا تو دوسرے نے بھی پیچھے رہنے میں دیر نہیں لگائی اور کالم بھی لکھا اور سفرنامہ بھی۔یہ وہ دن تھے جب امجد اور عطاء ہر جگہ ساتھ ساتھ نظر آتے تھے۔حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق انہیں ملاقات کے لئے طلب فرماتے تھے تو دونوں ساتھ ہی ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے دونوں حضرات کو تھوک کے حساب سے لطائف یاد تھے، جس کی وجہ سے ان کی صحت ہمیشہ خوشگوار ہو جاتی تھی لیکن پھر جانے کیا ہوا کہ دونوں دوستوں کی دوستی کو کسی کی نظر لگ گئی اور ہنسوں کے اس جوڑے کی رشتہ دوستی میں دراڑ پڑ گئی اور آج جب امجد ہمارے درمیان نہیں رہے تو عطاء پہ جانے کیا گزر رہی ہو گی۔ان ہی کی نظم کے یہ مصرعے ہیں۔ اگ کبھی میری یاد آئے تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں کسی ستارے کو دیکھ لینا گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا خدا وند تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ امجد اسلام امجد کی روح کو اپنے سایہ عاطفت میں رکھے اور ان کی غلطیوں اور غفلتوں سے صرف نظر کرے۔(آمین)