سیاستدان امکانات کے سمندر میں سیاست کے جال سے مفادات کی مچھلیاں پکڑتا ہے جبکہ ایک صالح اسی امکانات کے سمندر کی تہہ میں اصلاح کے موتی ڈھونڈتا ہے۔ سیاست کے پیچھے محرک اقتدار جبکہ تحریک کا ایجنڈا کامیابی سے بڑھ کر معاشرے کی مذہبی اخلاقی اور سماجی اصلاح ہوتا ہے۔ عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت کا نام پاکستان تحریک انصاف رکھا دو دھائیوں تک انصاف کی یہ تحریک عوامی توجہ اور پذیرائی کے لئے جدوجہد کرتی رہی پھر چیئرمین پی ٹی آئی نے بھی تحریک کے بنیادی مقصد سے ہٹ کر امکانات کے سمندر میں سیاسی جال پھینکا یہ فیصلہ تو تاریخ نے کرنا ہے کہ اس جال میں انہوں نے بھی مفاد کی مچھلی کا شکار کیا یا پھر خود شکار ہو گئے مگر ایک بات تو واضح ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں تحریکی ایجنڈے پر ایک کے بعد ایک سمجھوتہ کرنا پڑا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو اقتدار کا تاج سر پر رکھنے کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ اپنی تقریروں سے ہی سہی اقتدار کے دوران انہوں نے اپنی تحریک کے چاہنے والوں میں اچھا خاصا اضافہ کر لیا مگرمقبولیت کی قیمت اپنی تحریک کی قبولیت قربانی کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ جب کڑا وقت آیا تو وہی ہوا جو سیاست میں ہمیشہ سے ہوتا آیاہے اقتدار ہو تو چاہنے والوں کی کمی نہیں ہوتی اور اقدار کے جانے کے بعد سب سے قریب جو ہوتے وہ سب سے پہلے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ خلوص اور سچے ساتھی اقتدار کے کھیل میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں جو ہوں ان کو اگنی پرکھچا سے گزرنا پڑتا ہے۔ تحریک انصاف میں بھی یہی ہواکہ اپنی مقبولیت کے عروج کے زمانے میں ان پارٹی کے ان بھہ کواہوں کو چن چن کر پارٹی سے نکال دیا گیا جن کا تجربے اور دانش کی بنا پر پارٹی میں رہنا ضروری تھا ۔ نتیجتاََ پارٹی بازیچۂ اطفال بن کر رہ گئی اور پارٹی کے چئیرمین شب و روز اس کا تماشا دیکھا کء ے اور اب چیئرمین پی ٹی آئی پنجرے میں بند پیشیاں بھگت رہے ہیں اور موقع پر ست اپنے کھری کرکے جا چکے ہیں اور جو وفادار ہیں وہ اپنی اپنی وفاداری کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ سیاست امکانات کا کھیل ہے کوئی نہیں جانتا کل کیا ہو گا۔ امکانات کے سمندر کے اس کھیل میں عمران خان کے ساتھ کوئی ان ہونی نہیں ہوئی جس نے بھی یہ شوق پالا تخت یا تختہ اس کا مقدٹھہرتا ہے۔ تحریک اور سیاست میں البتہ ایک فرق ہمیشہ رہا ہے سیاست میں برے وقت آنے پر جماعتیں کمزور ہوتی ہیں اور تحریکیں جتنا دبائو اور سختیاں برداشت کرتی ہیں ، اتنی ہی مضبوط ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف، اس کے چیئرمین اور کارکنان آج کل امتحان اور ابتلا کے دور سے گزر رہے ہیں ۔اس سے پہلے اس قسم کے امتحانات میں میاں نواز شریف اور ان کی جماعت گزر چکی ہے۔ ایک وقت تھا جب میاں نواز شریف کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ان کے ماتحت ادارے پاتال سے بھی ان کے خلاف مقدمات کے لئے الزامات نکالنے میں مصروف تھے۔ وزیر اعظم ہوتے ہوئے اداروں نے الزامات لگائے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت نے مجرم قرار دیا ۔مگر وہ امکانات کے سمندر میں بار بار جال پھینکتے رہے۔ پہلے جیل سے رہائی کی سبیل کی پھربرطانیہ میں بیٹھ کر جن اداروں کو ایک نظر نہیں بھاتے تھے ان کو رام کرنے میں جت گئے ۔امکانات کو توقعات میں ڈھالنا شروع کیا۔ مقبولیت کے بجائے قبولیت کے جتن شروع کئے۔ مقدر کے ایسے دھنی کہ دوسری بار نہ صرف جیل سے اقتدار تک پہنچے بلکہ تیسری بار اپنی شرائط پر اقتدار کے لئے منتیں کروا رہے ہیں جن اداروں نے مقبولیت کابخار عدالتوں میں اتارا دیا تھا آج وہی گنگا میں اشنان کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں ۔جن عدالتوں نے پانامہ کو چھوڑ کر اقامہ پر نااہل اور مجرم قرار دیا تھا وہ عدالتیں ہی اس نااہل اور مجرم کے کو ریلیف دے رہی ہیں۔ جو کل تک نامحرم تھے آج اس قدر مہربان ہیں کہ مقدمات، اداروںاور عدالتوں کا ذمہ اپنے سر لے کر استقبال کی تیاریوں میں معاون بن چکے ہیں۔ امکانات کے سمندر میں نواز شریف کے جال میں مفادات کی مچھلیاں کیسے آ رہی ہیں اس کا جواب بھی مفادات ہی ہیں اور راز نواز شریف کو جیل سے ملنے والی دو بار زندگی ہے ۔ان کا ہی مقدر ہے جو ان کو کال کوٹھڑی سے نکال کر تخت پر بٹھاتا ہے۔ مقدر کے علاوہ کچھ ہے تو وہ ان کا جیل سے اقتدار تک کا راستہ بنانے کا تجربہ ہے۔ تجربے سے انہوں نے اتنا تو سیکھ لیا ہے کہ مقبولیت نہیں قبولیت اصل چیز ہے۔ قبولیت مل جائے تو مقبولیت لئے تو قیمے والے نان کام نہ آئیں تو ہنڈا 125کا نسخہ کام کر جاتا ہے۔ ووٹ کی عزت سے جیل ملتی ہے مگر قبولیت سے ووٹوں کے باکس بھر جا تے ہیں۔ 21اکتوبر کو نواز شرف مینار پاکستان میں عوام کو اپنے خطاب میں نظریاتی سیاست اور سیاسی ضرورت کا فر ق سمجھائیںگے۔ امکانات کا سمندر ہر کسی کے لئے موجود ہوتا ہے البتہ فیصلہ کرنے اور ترجیحات طے کرنے کا اختیار ضرورت مند پر منحصر ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح انا اور حق کے فریب میں پھانسی کا پھندا گلے میں ڈالنا ہے یا پھر زمینی حقائق کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے سیاسی میدان میں اپنی ضرورت پیدا کرنے کے مواقع پیدا کرتے ہوئے تخت تک پہنچنا ہے۔ جیل نے نواز شریف کو ہی نہیں سکھایا بلکہ عمران خان کی تربیت کا عمل بھی جاری ہے۔ فیصلہ چیئرمین پی ٹی آئی نے کرنا ہے کہ وہ نواز شریف کی طرح حالات کو اپنے حق میں پھیرنے کا جادو سیکھتے ہیں یا پھر بھٹو کی طرح انا اور حق پرستی کا پھندا چومتے ہیں۔نواز شریف اور چیئرمین تحریک انصاف میں صحیح اور صائب سوچ کس کی ہے ؟ اس صحیح اور غلط کا فیصلہ مورخ کرے گا کہ تاریخ آخر کار آنے والی نسلوں کو دونوں رخ دکھا دیتی ہے۔