دنیا میں صرف صوفیاء کا طبقہ ہے جس نے سوسائٹی کو اَمن، رواداری، انسان دوستی، تحمل اور برداشت کا نہ صرف سبق دیا، بلکہ اس کے عملی منظر اور مظہر دنیا کو عطا کئے۔ ان کی خانقاہیں بلا رنگ و نسل اور مکتب و مسلک سماجی رابطے کا سب سے موثر ذریعہ اور انتہا پسندی کے تدارک کا معتبر ادارہ تھیں۔ انہوں نے تشدد اور دہشت و وحشت جیسے منفی جذبوں کے تدارک کے لیے بھر پور کردار ادا کیا، اوراپنے آستانوں کو سماجی بہبود اور تہذیبی نمو کامرکزبنایا۔ گزشتہ روز قادری مکتب کے روحانی پیشوا حضرت شاہ حسین ؒ لاھوری کے 436 ویں سالانہ عرس کا افتتاح اور پھر اس موقع پر صوفی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ صوفی سکالراورمذہبی دانشورجلوہ آرا ہوئے،انکی شخصیت اور فکروفن سے آگاہی کا اہتمام ہوا۔ لاہورقادری صوفیوں کا مرکزاورشاہ حسین انکے سرخیل تھے۔ 1880ء میں شالا مار باغ کے تجارتی اور ثقافتی میلے کا پھیلاؤ باغبانپورہ لاہور میں حضرت شاہ حسین ؒ کی خانقاہ تک آن پہنچا تھا،دوسری طرف بہار کی نئی کونپلیں،گلوں کے نو بنو رنگوں کو لیے بادِ نو کے ساتھ عرس اور میلے کے اس امتزاج کو دوآتشہ کرنے لگیں،مگر اب تو امرِ واقعہ یہی ہے کہ بہاروں اورچراغوں کی لَو ذرا مدھم ہونے، اور اس خاص تہوار سے وابستہ رونقیں کچھ ماند پڑنے کو ہیں۔ سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر پنجاب کے بہت سے دیگر عرسوں اور میلوں کی طرح۔۔۔ یہاں کا دائرہ بھی قدرے سمٹتا جا رہا ہے۔تاہم حضرت شاہ حسینؒ کے شخصی اوصاف وکمالات اور احوال وافکار کے نت نئے زاویے ہیں۔۔۔کہ وَا ہور ہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ عصرِ حاضر میں تصوّف کو دین سے جدا کرکے پیش کرنے والے جدید روشن خیال مبلغین اوربعض غیر محتاط مصنفین نے حضرت شاہ حسین ؒ کی آزاد مشربی کی داستانیں بیان کرکے، ان کی شخصیت کو جس طرح پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ کسی طرح بھی موزوں نہ ہے۔ حضرت شاہ حسین ؒابتدائی طور پر روایتی دینی درسیات کے باقاعدہ طالب علم اور تصوّف کے معروف سلسلہ "قادریہ "کے شیخ طریقت تھے۔ ہر بڑی شخصیت فکری اور روحانی طور پر مختلف کیفیات اور ادوار سے گزرتی ہے،ایسے ہی مراحل حضر ت شاہ حسین ؒ کی زندگی میں بھی ہوسکتے ہیں، لیکن کسی مختصر دورانیے کو ان کی ساری زندگی پر محیط کرکے ان کی شخصیت کا کوئی مجموعی تاثرقائم کرنا ھرگز موزوں نہ ھے۔ حضرت شاہ حسینؒ محنتِ شاقہ اور ریاضتِ کاملہ کے ذریعہ انسان کو "فنا فی اللہ "ہونے کا راستہ دیکھاتے اور وصالِ حقیقی کو مقصد حیات سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "عشق کا راستہ سوئی کے ناکے کی طرح ہے، اس ناکے میں سے دھاگہ ہی گزر سکتا ہے اور دھاگے کا سا پیکر تو انسان کو ریاضتِ شاقہ ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ حضرت شاہ حسین ؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص مسلسل ریاضت سے دنیا کو تج دے، وہی واصل حق ہونے کا مرتبہ پانے کا اہل ہے۔ حضرت شاہ حسینؒ اور آپ کے قبیل کے دیگر صوفیا تزکیہ وطہارت اور باطنی پاکیزگی کی تلقین کرتے ہیں۔۔۔ کہ تزکیہء باطن ہی ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان صحیح معنوں میں اللہ کا قرب پاسکتا ہے۔ حضر ت شاہ حسینؒسوسائٹی کو اخلاقی اعتبار سے مضبوط اور مستحکم دیکھنے کے خواہاں ہیں جس کے لیے وہ اپنے کلام اور افکار میں جگہ جگہ نیکی کی راہ پر چلنے اور بدی سے اجتناب کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ حضر ت شاہ حسینؒ کی کافیوں کے موضوعات میں "خدا اورانسان، انسان اور انسان،راہِ سلوک کی مشکلات، فقر وفنا، ترکِ دنیا " بطورِ خاص اہم ہیں، وہ اپنی شاعری کے ذریعے انسان کو مسلسل جد وجہداور پیہم عمل کی تلقین کرتے، جس کے لیے "گْھم چرخڑیا "یعنی چرخے کے مسلسل گھومنے کو بطور استعارہ استعمال کرکے ہمہ وقت بر سرِپیکار رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔ عورت کی زندگی سے تعلق رکھنے والی بعض علامات جیسے سْسرال کو عاقبت اور اگلے جہاں، داج کو عمل اور توشہ ء آخرت،ڈولی کو سفرِ آخرت کی تیاری، بابل کے گھر کو دنیا اور رات کو عمر اور زندگی سے تعبیر کرکے دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی بات کرتے ہیں۔حضرت شاہ حسین ؒ کے والدین کا پیشہ "پارچہ بافی"تھا۔ اس پیشے کی علامات کو آپ ؒ نے اپنی شاعری میں استعمال کیا تواْس سے اس کی شاعری میں مقامی رنگ غالب آیا اور آپ کی شاعری کو اور زیادہ پذیرائی میسر آئی، جیسے چرخا کو جسم، تانا بانا کو جسمانی عناصر،کاتنا کو اعمال، پنج پونیاں کو نمازِ پنجگانہ، سات پونیاں کو تہجد واشراق سمیت پنجگانہ نماز،لیکھا کو یوم آخرت کے حساب اور ادھا ر پونچی کو زندگی وغیرہ کی معنی خیز علامتوں سے تعبیر کرکے دنیا کی حقیقت اور موت کی فکرجیسے بنیادی عوامل کو راسخ کرنے کی کوشش کی۔ یقینا ایسا ہونا بھی چاہیے کہ شاہ حسینؒ کی ابتدائی تعلیم وتربیت روایتی دینی ماحول میں ہوئی اور پھر اس کی زندگی زہد واتقا اور تقشف وریاضت میں ڈھل گئی،سارا دن قرآنی مطالعے،صوم وصلوٰۃ اور راتیں داتا کے مزار پر کٹتیں اور پھر ان کی زندگی میں ایک عارضی سا دورانیہ آیا جب ان کی نغمہ ریزیوں نے لاہور کی فضاؤں کو مْر تعش کردیا اور اگر۔۔۔ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے، تو پھر حضرت شاہ حسینؒ ا س مقامِ رفیع پر فائز ہوئے کہ ان کے عہد کی جلیل القدر ہستی ملّا عبدالحکیم سیالکوٹی ان سے اکتسابِ فیض کے لیے ملتجی، حضرت مجدّد الفِ ثانی کے مرید خاص الشیخ طاہر لاہوری ان کے مزار سے استمداد کے خواہاں، اور جہانگیر کے حرم میں ان سے عقیدت وارادت معتبر تاریخی حوالوں کے ساتھ محفوظ ہوئے،بلکہ داراشکوہ نے اپنی تصنیف "شطحیاتِ دارا"میں مزید لکھا ہے کہ شہزادہ سلیم نے بہادر خاں نامی اپنے ایک کارِ خاص کو حضرت شاہ حسین کے لیے مامور کررکھا تھا،جو آپؒ کی روزانہ کی ڈائری قلمبند کرتا، جو "بہاریہ "کے نام سے معروف ہوئی۔ بلاشبہ مختلف سوانح نگاروں کا، آپ ؒکے مرید خاص مادھولال کے ساتھ آپ کے تعلق پر عدم احتیاط۔۔۔ ایک افسوسناک با ب ہے۔ حضرت شاہ حسین ؒ کی ولادت 1538یا1539جبکہ مادھولال کا سنِ ولادت 1576ہے،جس کا مطلب ہے وہ عمر میں حضرت شاہ حسینؒ سے 38سال چھوٹے۔۔۔جتنا کم از کم ایک بیٹا اپنے باپ سے ہوتا ہے۔اگرمادھو سولہ سترہ سال کی عمر میں بھی حضرت شاہ حسین ؒسے ملا ہو تو اس وقت حضرت شاہ حسینؒ کی عمر پچپن سال ہوگی، عمروں کے اس تفاوت کے ساتھ ان کے درمیان کسی رومانی تعلق کا تصور محال ہے، اور اگر ایسا تھا تو شاہ حسینؒ کے پورے کلام میں اس "رومانس"کا کسی جگہ بھی کوئی اشارہ یا کنایہ موجود ہوتا۔ در اصل مادھو حضرت شاہ حسینؒ سے ویسی ہی عقیدت وارادت اورنیازمندی رکھتا تھا جیسی ایک مریدکو اپنے شیخ کامل اور شاگردکو اپنے استاد کے ساتھ ہوتی ہے، ایسی عقیدت ومحبت کے جواب میں شیخ اور استاد کا التفات ایک فطری اور لازمی امر ہے،جوکہ حضرت شاہ حسینؒ کا مادھو کی طرف تھا۔