آج پاکستانی شہری آئین پاکستان کے تحت حاصل حق رائے دہی کو بروئے کار لاتے ہوئے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے۔امن و امان برقرار رکھنے کے لئے پولیس کے ساتھ رینجرز اور فوج کے دستے موجود ہوں گے۔شہری اس توقع کے ساتھ ووٹ ڈالنے جائیں گے کہ ان کے ووٹ کا احترام کیا جائے گا۔پاکستان میں عام انتخابات نومبر 2023 کو ہونا تھے لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے فنڈز کی کمی،مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں، امن و امان اور دیگر جواز پیش کرنے پر 8 فروری 2024 کی تاریخ طے پائی۔ اس عرصے میں بہت سے واقعات نے پاکستانی سیاست پر دور رس اثرات مرتب کئے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے متعدد رہنما اور کارکن نو مئی کے افسوسناک واقعات کی پاداش میں قانونی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی سیاست کے حالات پہلے ہی خراب تھے، اس واقعہ کے بعد جماعت کی پریشانیاں دو چند ہو گئیں۔ کچھ سوال الیکشن کمیشن کی پالیسیوں اور اقدامات پر بھی اٹھے ۔الیکشن کمیشن حکومتی مداخلت کو روکنے میں ناکام دکھائی دیا ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل میں شفافیت برقرار نہ رہی تو آنے والی حکومت کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچے گا، عوامی بے چینی کو ہوا ملے گی اور پہلے ہی دہشت گردانہ حملوں سے دوچار ملک میں انارکی کے خطرات کو بڑھاوا ملے گا۔ الیکشن کمیشن سے کہا جاتا رہا ہے کہ اسے کوشش کرنی چاہیئے کہ تمام جماعتیں آزادانہ طور پر الیکشن میں حصہ لے سکیں۔ الیکشن کا اعلان ہوتے ہی کئی مقدمات عدالتوں میں پہنچ گئے ۔اعلیٰ عدلیہ سے امید کی جاتی ہے کہ وہ انجمن سازی اور اظہار رائے کی بنیادی آزادیوں کو برقرار رکھے گی، ووٹروں کی توقع رہی ہے کہ پاکستان کے سیاست دانوں کو کسی بھی جانب سے جوڑ توڑ کی کوششوں کو مسترد کرنا چاہیے۔ پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے دوران بین الاقوامی مبصرین اور صحافیوں کی موجودگی کو یقینی بنانا شفافیت کو فروغ دینے اور انتخابی عمل میں بین الاقوامی معیارات کو برقرار رکھنے کی جانب ایک قابل ستائش قدم ہے۔ گزشتہ سال، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے غیر جانبداری اور غیر جانبدار نگرانی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے بین الاقوامی مبصرین کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا۔ نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے واضح کیا ہے کہ غیر ملکی صحافیوں کو پہلے ہی 49 ویزے جاری کیے جا چکے ہیں، جن میں سے 32 کواضافی ویزے جاری کئے گئے ہیں،اس سے کئی افواہیں دم توڑ جاتی ہیں ۔ انتخابات ایک باضابطہ اجتماعی فیصلہ سازی کا عمل ہے جس کے ذریعے کسی جمہوری ملک کے شہری ایک فرد یا متعدد افراد کو عوامی عہدہ رکھنے کے لیے منتخب کرتے ہیں۔انتخا بی عمل ایک معمول کا طریقہ کار رہا ہے جس کے ذریعے جدید نمائندہ جمہوریت 17ویں صدی عیسوی سے چل رہی ہے۔ انتخابات کے ذریعے اراکین مقننہ کا انتخاباور علاقائی اور مقامی حکومتوں کے نمائندے منتخب کئے جا سکتے ہیں۔ یہ عمل بہت سی دوسری نجی اور کاروباری تنظیموں میں بھی استعمال ہوتا ہے، کلبوں سے لے کر رضاکارانہ انجمنوں اور کارپوریشنوں تک۔جدید نمائندہ جمہوریتوں میں نمائندوں کے انتخاب کا طریقہ کار عالمی سطح پر استعمال مستعمل ہے ۔ قدیم ایتھنز میں انتخابات کو ایک اولیگارک ادارہ سمجھا جاتا تھا اور زیادہ تر سیاسی دفاتر جانچ پڑتالکے ذریعے تشکیل دیئے جاتے تھے، جسے الاٹمنٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یوں دفتر داروں کا انتخاب قرعہ اندازی سے کیا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انتخابی عمل میں اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے۔انتخابی اصلاحات منصفانہ انتخابی نظام کو یقینی بناتی ہیں ۔ موجودہ نظاموں کی منصفانہ جہت یا مؤثرپن کو بہتر بنانے کے لئے بھی اصلاحات متعارف کرائی جاتی ہیں۔پاکستان کے انتخابی نظام میں الیکٹرانک ووٹنگ کا طریقہ بروئے کار لانا، اوورسیز کو ووٹ کا حق دینا ، نمائندوں کا انتخاب متناسب نمائندگی کے ذریعے کرنا اور کابینہ میں نچلے طبقات کی لازمی نمائندگی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں طبقاتی تصادم بڑھ رہا ہے، بالائی طبقات وسائل پر قابض ہیں۔تمام سیاسی قوتیں آپس میں لڑ رہی ہیں۔پاکستان کے لیے سیاسی پولرائزیشن شاید نئی بات نہیںہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا کردار سیاسی جماعتوں کی تنقید کی زد میں رہا ہے ۔2017 میں وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ۔انہیں بدعنوانی کے الزامات میں سزا سنائی گئی، انہیں عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا، اسی بنیاد پر عدالت نے انہیں نااہل قرار دیا۔ پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو بد عنوانی کے خلاف مہم کا عزم کیا، اس مہم کی نگرانی قومی احتساب بیورو نے کی۔آج اسی کیفیت کا شکار پی ٹی آئی ہے۔سیاسی رہنماوں کو وقت کے بدلنے کے ساتھ روایات کے سود و زیاں کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیئے۔ آج کا الیکشن تقاضا کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن جہاں انتخابی انتظام کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا کردار مثبت طور پرادا کرنا چاہیے۔ زہریلی پولرائزیشن کا خاتمہ ہونا چاہیئے۔ تمام جماعتوں کو انتخابات میں آزادانہ طور پر حصہ لینے کے حق کو قبول کرنا چاہیئے ۔الیکشن اگر متنازع نتیجہ کی طرف لے جائیں تو جمہوریت سمیت ریاست عوام کا اعتماد کھو بیٹھتی ہے ۔ نظام کو درپیش مشکلات بوجوہ بڑھ گئی ہیں لیکن اب تمام فریقوں کو آگے بڑھنا چاہئے ، ملک کو کسی داخلی تنازع میں زیادہ دیر تک نہیں رکھا جا سکتا۔ انتخابات عوام کی منشا کا اظہاربنتے ہیں۔عوام کی منشا کو ہر حال میں قبول کیا جانا چاہیئے کیونکہ ریاست کا دوسرا نام اس کے شہری ہیں۔