انتخابات کا معاملہ عدالت میں جانا تھا اور بالآخر عدالت جا پہنچا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں نو رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔ گذشتہ روز اس بینچ نے پہلی سماعت کی جو کئی حوالوں سے بہت اہم تھی۔ پہلی سماعت کے دوران ہی سپریم کورٹ کے ججز اور ماہرین آئین و قانون کی توجہ کچھ نئے پہلوئوں کی جانب مبذول ہو گئی ہے۔لہذا یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا سماعت کے آغاز پہ لگ رہا تھا۔ ایک تو کچھ عرصے سے یہ چلن چل نکلا ہے کہ مختلف قوتیں عدالت پہ اپنی مرضی کا بینچ بنانے کے لیے دبائو ڈالنے لگی ہیں۔کچھ مہینے پہلے ایک بینچ کے خلاف سماعت سے چند گھنٹے پہلے پوری پی ڈی ایم نے ایک پریس کانفرنس کر دی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ اس مخصوص مقدمے کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ اِس بار جب ایک اہم مقدمے کے سماعت کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے ایک بڑا بینچ تشکیل دیا گیا ہے تو کچھ وکلا تنظیموں کی جانب سے یہ مطالبہ ہونے لگا ہے کہ فلاں دو ججوں کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے، گویا یہ اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا نہیں ہے کہ انہیں کیا بینچ بنانا ہے؟کیا اب کچھ قوتیں اعلانیہ طور پہ عدالتوں پر دبائو ڈال کے فرمائشی بینچ بنانے کی روایت بھی ڈالنا چاہتی ہیں؟ خیر واپس آتے ہیں پہلی سماعت کی طرف۔ چیف جسٹس کے ریمارکس کے علاوہ دو باتیں نہایت اہم ہیں۔ایک جسٹس جمال مندوخیل کی چیف جسٹس کی طرف سے سوموٹو لیے جانے کی مخالفت اور دوسرا جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے کیس کے نئے پہلووں کی جانب نشاندہی۔ جسٹس اطہر من اللہ سمجھتے ہیں کہ ان تینوں سوالوں کی بجائے مزید پہلووں پر بھی بینچ کو غور کرنے کی ضرورت ہے جو دو روز پہلے کے اعلامیے میں بتائے گئے تھے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے واضح طور پر تین پہلوئوں کا جائزہ لینے کے عمل کا اظہار کیا تھا۔ ایک ،اس بات کا تعین کرنا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے ۔ دو ، اس بات کا جائزہ لینا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار کب اور کیسے استعمال کرنا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ وفاق اور صوبوں کی اس ضمن میں ذمہ داری کیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مگر ایک نیا سوال اٹھایا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جائزہ لیا جانا بھی ضروری ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل بھی آئین کے مطابق ہوئی ہے یا نہیں ۔ اس سوال کے اٹھتے ہی جسٹس منصور علی شاہ نے ایک اور سوال اٹھایا کہ کیا اسمبلیوں کو اپنی مدت کی تکمیل تک کے لیے بحال بھی کیا جا سکتا ہے؟یہ دو سوال ایسے ہیں، جن سے اس کیس کا احاطہ یا سکوپ وسیع ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس کے ذریعے ان کا ذہن اس حد تک بالکل واضح نظر آیا کہ وقت کم ہے اور اگر انتخابات آئین کے مطابق نوے دن میں ہونے ہیں تو اس معاملے کو جلد از جلد نمٹانا ہو گا۔ وقت کی قلت کو دیکھتے ہوئے ہی سپریم کورٹ نے تمام ریگولر کیسز کی سماعت چند دن کے لیے ملتوی کر دی ہے تاکہ تمام نو ججز پورا وقت اس کیس کی سماعت کے لیے مختص کریں۔ سپریم کورٹ کے نو ججز کی جانب سے اس کیس کو سننے سے پہلے چند چیزیں وقوع پذیر ہو چکی ہیںجنہیں دیکھے بغیر اس معاملے کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ مثلا سپریم کورٹ کے سامنے ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ایک فیصلہ آ چکا ہے، جس میں الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ گورنر پنجاب اس فیصلے کے خلاف اپیل میں بھی جا چکے ہیں۔ دوسری طرف صدر مملکت عارف علوی الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر چکے ہیں،الیکشن کمیشن کی جانب سے اس پر بھی عملدرآمد کا آغاز نہیں کیا گیا۔علاوہ ازیں وکلا تنظیمیں عدالت کے پاس درخواست لائی ہیں کہ نوے دن کے اندر اندر الیکشن کرانے کے عمل کو یقینی بنایا جائے اور تعین کیا جائے کہ انتخابات کی تاریخ دینے کی بنیادی ذمہ داری کس کی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس،جسٹس عمر عطا بندیال نے اس اہم کیس میں سبھی فریقین کو سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ باوجود اس کے کہ عدالت سمجھتی ہے یہ معاملہ جلد از جلد منطقی انجام کو پہنچنا چاہیے،ہر متعلقہ شخص کو سننے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تبھی اٹارنی جنرل، چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز، الیکشن کمیشن آف پاکستان، حکومت پاکستان، پنجاب حکومت، خیبر پختونخواہ حکومت، صدر پاکستان،وکلا کی نمائندہ تنظیموں کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ آ کر اس ضمن میں اپنا موقف بیان کریں ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شعیب شاہین کا موقف تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے، جو بھی فیصلہ آئے گا سبھی اس کے بینیفشری ہوں گے، مزید یہ کہ ایسا کرنے سے معاملہ گھمبیر ہو جائے گا۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے مگر پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے وکلا کوموقف دینے کی دعوت دی ہے۔ یہ مقدمہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین مقدمہ ہے۔ اس مقدمے نے پاکستان میں ہمیشہ کے لیے انتخابات سے متعلق آئین و قانو ن کے مخصوص نکات کی تشریح کرنی ہے۔ ہمیشہ کے لیے ایگزیکٹو کی ذمہ داریوں کا تعین کرنا ہے۔ ابھی طے ہونا ہے کہ آئین مقدم ہے یا نظریہ ضرورت اب بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔ یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ الیکشن نوے دن میں ہوتے ہیں یا نوے روز کے بعد۔ نوٹس جاری ہونے کے بعد آج پہلی باقاعدہ سماعت ہے،دیکھئے کیا رخ متعین ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭