محترم چیف جسٹس پاکستان اخبارات اورنیوز چینلز سے پتہ چلا کہ عدلیہ نے بعض اداکار اینکرز پر رمضان المبارک کے دوران پابندیاں لگا دی ہیں،انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے پروگرامزمیں لاٹری، جواء اورسرکس جیسے سیگمنٹس شامل نہیں کر سکتے، خلاف ورزی پر عمر بھر کی نا اہلی کی سزا دیدی جائے گی۔با با جی! کچھ دوست اسے آزادی صحافت پرپہرہ قرار دے رہے ہیں تو کچھ اس کے فیصلے کی تائید۔۔۔ اسی طرح کے کچھ میزبانوں سے تو پوری قوم ہی تنگ ہے ،لوگ امید کررہے ہیں شاید کہ آپ کچھ مدد فرمائیں ۔ جناب چیف جسٹس ! ہم نے کبھی کبھی آپ کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی ہے، اس مسکراہٹ کی ہمیں بھی ضرورت ہے، ہم اسی لالچ میں نیوز چینلز کے مزاحیہ پروگراموں کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں ، شاید ہنسی آ جائے؟ مگر جناب اعلی، جونہی ایسے پروگرام شروع ہوتے ہیں ان کے میزبان اردو کی کلاس شروع کر دیتے ہیں، ہماری گرامر کی غلطیاں پکڑی جاتی ہیں، ہمارے تلفظ اور لہجے کو درست کرایا جاتا ہے، ہمیں مشکل مشکل ناموں کی ڈکشنریوں سے ڈرایا جاتا ہے، جناب،ہم ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ایک دوسرے سے شرمندہ ہونے لگتے ہیں، کئی بار تو اردو زبان کے نامور شاعر اور ادیب بھی اپنے اہل خانہ کے سامنے خوار ہوتے دیکھے گئے ہیں،میں نے اپنی آج کی تحریر کوانسانوں کی سرکس کا عنوان دیا ہے، اب ڈر رہا ہوں کہ سرکس پتہ نہیں،مذکر ہے یا مونث؟ براہ کرم ان انٹلیکچوئل میزبانوں سے ہماری جان چھڑائی جائے، اور حکم جاری کیا جائے کہ وہ ان مزاحیہ پروگراموں کو مزاحیہ ہی رہنے دیں، ہمارے ماسٹر نہ بنیں، ہم تو بڑے بھی یہ دعائیںمانگ مانگ کر ہوئے ہیں کہ یا اللہ جلدی جلدی ہمارا بچپن ختم کر تاکہ ایسے ماسٹروں سے نجات ملے اسی قسم کے ایک پروگرام کی میزبان ایک خاتون ہیں، اور یہ محترمہ اپنے پروگرام ہمیں تاریخ، جغرافیہ پڑھاتی رہتی ہیں۔۔چیف صاحب ! پلیز انہیں ڈانٹیں، انہیں اچھی طرح ڈانٹیں، یہ کیوں ہماری خوشیاں چراتے ہیں،،،، کیوں۔ ٭٭٭٭ اب اسی حوالے سے ایک تاریخی واقعہ:ظہیر کاشمیری ایک انتہائی قابل احترام صحافی،ادیب،خطیب اور استاد شاعرغزل کو نیا پیراہن دیا، ان کی ٹکر کا کوئی دوسرا ہم عصر نظر نہیں آتا، آج کی نسل اگر اس عظیم شاعر اور ان کی شاعری سے ناواقف ہو تو اسے بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے، ان کی غزلیں ہر بڑے گائیک اور گائیکہ نے گائیں، استاد امانت علی خان کی گائی ہوئی اس غزل سے کون واقف نہ ہوگا؟ موسم بدلا، رت گدرائی، اہل جنوں بے باک ہوئے موسم گل کے آتے آتے، کتنے گریباں چاک ہوئے غزل کا یہ مکھڑا ہی ہے جو سمجھ میں آجاتا ہے، پوری غزل پڑھیں، ایک ایک لفظ کو جاننے کیلئے اردو زبان کی کئی ڈکشنریاں درکار ہونگی، لیکن شاعر کا کمال ہے کہ لفظ اپنا مفہوم خود بولنا شروع کردیتا ہے۔ یہ غزل ہی استاد امانت علی خان کی شناخت بنی اس کے بعد انہوں اپنی موت تک پیچھے مڑ کرنہ دیکھا۔ ہم ظہیر کاشمیری صاحب کو بھی احتراماً بابا جی ہی کہتے تھے، بابا جی ظہیر کاشمیری کو بھی فلمی دنیا کا ٹھرک تھا ،انہوں نے تین پھول کے نام سے ایک فلم بنائی ،جس کے ڈائریکٹر،رائٹر اور شاعر وہ خود ہی تھے،بس سرمایہ ان کے ایک دوست نے فراہم کیا تھا، فلم کے ہیرو سنتوش کمار اور ہیروئن نیئر سلطانہ تھیں۔شوٹنگ جاری تھی، ہیرو،ہیروئن سیٹ پر موجود تھے، کیمرہ الرٹ تھا، بابا جی سین کی ڈیمانڈ کے مطابق مکالمہ لکھنے میں مصروف تھے، مکالمہ سنتوش کمار کیلئے تھا جو انہوں نے اپنی پریشان محبوبہ کے سامنے بولنا تھا۔جان جاں، تم اتنی زود رنج کیوں ہوئی جاتی ہو۔بار بار ٹیک ہو رہی تھی، ہر بار سنتوش کمار کی سوئی ِ زود رنج ،پر اٹک جاتی تھی، ظہیر کاشمیری صاحب ان پڑھ جیسے خطابات سے نواز رہے تھے، اپنی عادت کے مطابق پتہ نہیں کیا کیا بول رہے تھے، سنتوش کمار نے کئی بار التجا کی کہ وہ لفظ زود رنج کی جگہ کوئی آسان لفظ لکھ دیں، بابا جی کا اصرار تھا کہ اس لفظ کا کوئی متبادل ہی ایجاد نہیں ہوا؟ سنتوش کمار بھی کب تک ان کے ہاتھوں بے عزت ہوتے ، اچانک انہوں نے اپنی ٹون ہی بدل لی اور ان کے سامنے سیدھے ہو گئے۔۔ اوئے بابا۔۔۔۔ مینوں لقوہ کرانا ایں ؟ میرا اعزاز ہے کہ میں ظہیر کاشمیری صاحب کا ماتحت رہا، ان کے ساتھ آزادی صحافت کیلئے جیل کاٹی اور لاہور پریس کلب میں ان کے ساتھ تاش کی گیم کھیلی اور۔۔۔۔۔۔ظہیر کاشمیری صاحب کا انتقال 12 دسمبر 1994ء کو لاہور میں ہوا۔ ٭٭٭٭ ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات کہتے ہیں کہ خبریں تو روز بنتی ہیں مگر چھپتی کبھی کبھی ہیں۔ ایک خبر کسی نیوز چینل پر دیکھی، جس میں بتایا گیا کہ ایک بھٹہ مالک نے نسل در نسل گروی رکھے گئے ایک مزدور کو اس کے خاندان کے دیگر بارہ افراد سمیت کسی دوسرے بھٹہ مالک کو بیچ دیا، اس مزدور کو بچوں اور عورتوں سمیت پہلے بھی دو بار راولپنڈی اور پشاور میں بیچا اور خریدا گیا۔یہ واقعات روزانہ وقوع پذیر ہوتے ہیں، درجنوں کے حساب سے ہوتے ہیں، شہر شہر میں ہوتے ہیں، لاہور کے ایک تھانے میں ایک ہی شخص کی مدعیت میں سینکڑوں پرچے درج ہیں، نسلوں سے گروی پڑا ہوا کوئی مزدور جب بھی بھٹہ مالک کی حراست سے مفرور ہوتا ہے ،یہی پرچہ اس کے اور اس کے خاندان کے خلاف درج ہوجاتا ہے، اس ایف آئی آر میں زنا کی شق بھی شامل ہے تاکہ ملزم کو پناہ کا کوئی راستہ نہ مل سکے۔۔لاہور کے جس تھانے کا میں ذکر کر رہا ہوں ،وہاں جس بھٹہ مالک کی مدعیت میں یہ مستقل ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے اس کے بھائی بھتیجے اسمبلیوں کے ارکان ہیں۔۔ جی ہاں منتخب ارکان جو عوام کی خدمت کی بجائے انسانوں کا سرکس چلا رہے ہیں۔ ٭٭٭٭ پنجاب میں ن لیگ کو بڑا جھٹکا لگا ہے، عمران خان کو طاقت کا ٹیکہ لگا دیا گیا ہے، جنوبی پنجاب میں ن لیگ سے بغاوت کرنے والے قومی اسمبلی کے پانچ اور صوبائی اسمبلی کے بارہ منتخب نمائندے علیحدہ صوبے کا تحریری معاہدہ کرکے پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں۔۔۔اس ایگریمنٹ پر عمران خان نے خود دستخط کئے ہیں، یادداشت کے مطابق اقتدار میں آنے کے سو دن تحریک انصاف نئے صوبے کے وعدے کی تکمیل کی ذمہ دار ہوگی۔ ہمیں اس معاہدے کے بعد عمران خان کے اس بیانیے کو آنے والے وقت تک یاد رکھنا پڑے گا۔۔۔جانتا ہوں کہ یہ کوئی آسان کام نہیں۔۔یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ 2013ء میں اسی وعدے کے ساتھ نواز شریف نے یہی نشستیں جیتی تھیں۔ ٭٭٭٭ قومی اسمبلی نے جاتے جاتے ایک بڑا قانون بنا دیا، پاکستان کے مخنثوں کو انسان تسلیم کرتے ہوئے ان کے حقوق کا اعتراف کیا گیا ہے، منظور شدہ بل میں مخنث افراد کو شناختی کارڈ بنوانے،پاسپورٹ لینے اور ووٹ دینے کا حق دیدیا گیا ہے، پیپلز پارٹی نے حکومت کی مدت ختم ہونے سے پہلے سینیٹ سے اس کی توثیق کی تحریک پیش کی ہے۔۔نئے قانون میں مخنثوں کو عوامی مقامات تک رسائی اور حق جائیداد کے ساتھ ساتھ اجتماع کی آزادی کا حق بھی دیا گیا ہے اور عوامی عہدہ رکھنے کا حق بھی۔۔۔ اس طرح مردوں کے اقتدار کے اس معاشرے میں تیسری نسل کہلائے جانے والوں کو مکمل عورت اور مکمل مرد کا درجہ مل گیا،۔۔ اب وہ سیاسی جلسہ بھی کر سکیں گے اور الیکشن بھی لڑ سکیں گے۔ کیا وہ اہل اقتدار بھی ہونگے؟ کیا سے کیا مراد ہے جناب؟ ’’وہ تو ہیں‘‘ ٭٭٭٭ فاروق ستار نے بہادر آباد والوں کے سامنے عملاً سرینڈر تو کیا، مگر وہاں سے انہیں پرانی عزت ملتے ہوئے دیکھا گیا، اسی عزت کے لمحے میں ان کا یہ بیان بہت ہی اہم ہے کہ ایم کیو ایم اب کسی کو غدار نہیں کہے گی۔۔۔ کیا اشارہ الطاف حسین کی طرف تھا؟