کشمیر میں اسلام کی آمد 14ویں صدی میں اسوقت ہوئی،جب بدھ مت اور برہمنوں کے درمیان زبردست معرکہ آرائی جاری تھی۔ اس دوران جب بلبل شاہ اور بعد میںمیر سید علی ہمدانی نے اسلام کی تبلیغ کی، تو عوام کی ایک بڑی اکثریت نے ا س پرلبیک کہا۔ یہ شاید واحد خطہ ہوگا، جہاں ہندوئوں کی اعلیٰ ذاتوں نے بھی دائرہ اسلام میں پناہ لی۔ لیکن برہمنوں کا ایک طبقہ بدستور اپنے دھرم پر ڈٹا رہا۔ اسی صدی میں جب سلطان سکندر کے وقت ایک کشمیری برہمن سہہ بٹ نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام سیف الدین رکھا، تو اسنے کشمیری برہمنوں کے اقتدار کو نشانہ بنا کر ان کو تختہ مشق بنایا، جس کی وجہ سے اکثر پنڈتوں نے ہجرت کی۔ مگر سلطان سکندر کے فرزند زین العابدین جنہیں بڈشاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نے تخت نشینی کے فوراً بعد ہی اس پالیسی کو ختم کرواکے، ان کشمیری پنڈتوں کو واپس لینے کیلئے وفود بھیجے اور ان کو دربار میں مراعات اور عہدے بخشے۔ اپنی خود نوشت سوانح حیات آتش چنار میں شیخ عبداللہ رقم طراز ہیں کہ کشمیر پنڈتوں کے اقلیتی کمپلکس کو ابھارنے میں مغل بادشاہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ کشمیری مسلمان امراء سے خائف رہتے تھے۔ مغل فرمانروا اکبر نے آدتیہ بٹ کو کشمیر کی جاگیروں کی نگہداشت پر مقرر کیا۔ کشمیر کے شمالی و جنوبی خطوں یعنی کمراز و مراز کے گورنر کشمیری پنڈت بنائے گئے۔ معروف مورخ جادو ناتھ سورکار لکھتے ہیںکہ مغل دور میں بہت کم کشمیر ی مسلمان اعلیٰ عہدوں پر نظر آتے ہیں۔ امور سلطنت میں مغل حکمران ، کشمیری پنڈتوں پر زیادہ اعتبار کرتے تھے۔ ملکہ نو ر جہاں کی ذاتی محافظ دستے کا سربراہ میرو پنڈت ایک کشمیری برہمن تھا۔ پنڈتوں کی بالادستی اورنگ زیب کے دور میں بھی جاری رہی۔ اس کے دور میں مہیش شنکر داس پنڈت کا طوطی بولتا تھا۔ افغانوں کا دو ر حکومت تو کشمیر میں ظلم و ستم کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ مگر ان کے دربار میں بھی کشمیری پنڈت ہی حاوی تھے۔ بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ حاجی کریم داد خان کا پیش کار پنڈت دلا رام تھا۔ افغان دور میں تو قبائلی علاقوں میں کشمیر ی پنڈت نند رام نکوکے نام پر سکے ڈھالے گئے تھے، جو غالباً 1810تک جاری تھے۔ مورخ جیالال کلم کا کہنا ہے کہ افغان دور میں کشمیری پنڈت حکومت پر چھائے رہے اور سیاسی طاقت ان کے ہاتھوں میں تھی۔ جب ایک افغان صوبیدار عطا محمد خان نے اس کے خلاف بغاوت کی اور کشمیری مسلمانوں کو بھی سیاسی طاقت میں حصہ دینے کی سعی کی، تو کشمیری پنڈت امراء اس کے خلاف کابل پہنچے اور اپنے ساتھ ایک بڑا لشکر لا کر اسکو کچل دیا۔ افغانوں کے زوال کے بعد پنڈت بیربل در نے سکھوں کو کشمیر پر قبضہ کرنے کی ترغیب دی۔ مہانند جو در ،سکھ دربار کا خاصا معتمد اور حاکم تھا۔ جب سکھ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا ، تو ڈوگرہ حکمران مہاراجہ گلاب سنگھ نے بیربل کاک کے بیٹے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنا کر بھیجا۔جس نے شال بافی صنعت پر ٹیکس لگا کر ، کشمیری کاریگروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ انگریز سرویر جنرل والٹر لارنس ، جو ان دنوں کشمیر میں تھے، لکھتے ہیں کہ کشمیر کی ساری سیاسی قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ’’مسلمان کاشت کار یا مزدور ہے اور اس کو برہمنوں کے آرام و آسائش کیلئے بیگار پر مجبور کیا جاتا ہے۔ــ‘‘مگر جب اسی دو ر میں کشمیری پنڈتوں کو پہلی بار پنجاب سے آئے انگریزی جاننے والے ہندو افسران سے مسابقت کا سامنا کرنا پڑا، تو انہوں نے اسٹیٹ سبجیکٹ کا نعرہ بلند کیا، جس کا مقصد تھا کہ صرف ریاستی باشندوں کے نوکری کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ چونکہ مسلمان ان دنوں ان پڑھ تھے، اور ان کا سرکاری نوکریوں کیساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہوتا تھا، اسلئے ان کیساتھ کسی مسابقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مگر بعد میں جب مسلمانوں نے پڑھنا لکھنا شروع کیا، تو ان ہی پنڈتوں نے اسی اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کے خلاف زمیں و آسمان ایک کر دیے۔ شیخ محمد عبداللہ کے مطابق جب 1931میں کشمیر میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا، تو مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیری پنڈتوں کو ڈھال بناکر انہیں پروپیگنڈہ کرنے کی شہہ دی کہ یہ تحریک دراصل ہندو مہاراجہ کے خلاف بغاوت ہے اور سارے ہندوستان میں کشمیری پنڈت خطرے میں ہے، کا شور برپا کر ڈالا۔ گلانسی کمیشن کی سفارشات اور اس تحریک کی بدولت جب چند نوکریاں مسلمانوں کو ملنے لگیں، تو کشمیر میں پنڈت لیڈروں نے اس کے خلاف روٹی ایجی ٹیشن شروع کی۔ مگر ان کی ہی برادری کے چند افراد پریم ناتھ بزاز، کشپ بندھو اور جیالال کلم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا، تو یہ اقلیتی طبقہ (پنڈت) احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگا۔ یہ نفسیات اب بھی بعض انتہا پسند پنڈتوںکو اس غلط فہمی میں مبتلا کر چکی ہے کہ وہ نئی دہلی کی پشت پناہی سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اگر اس مسئلہ کو بھارت کی عینک یا مفادات کے ذریعے بھی دیکھا جائے، تو کشمیری پنڈت ، کشمیر کی اکثریتی آبادی اور نئی دہلی کے درمیان ایک مضبوط پل کا بھی کام کرسکتے تھے۔ مگر بقول شیخ عبداللہ ان میں سے اکثر کو حکمرانوں کی خدمت اور اپنے ہم وطنوں کی جاسوسی کرنے میں ہی سکون ملتا رہا ہے۔ جو ان کو اپنے وطن سے بیگانہ کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ مہاتما گاندھی کہتے تھے، کہ کشمیر کی مثال ایسی ہے’’ جیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتے ہوئے انگارے کی۔ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارے کا سار ا برصغیر اس کی آگ کے شعلوں میں لپیٹ جائے گا۔‘‘ مگر گاندھی کے نام لیوا تو اسکی تعلیمات کب کی بھول چکے ہیں، اور اس کا استعمال تو اب صرف سفارتی ڈگڈگی بجا کر دنیا کے سامنے جمورے کا کھیل رچانے کیلئے کیا جاتا ہے۔کشمیری پنڈت کمیونٹی اور ان کے لیڈران سے درخواست ہے کہ اپنی لیاقت اور اثر و رسوخ کا مثبت استعمال کرکے، نہ صرف فرقہ وارانہ کھائی کو پاٹنے کا م کریں، بلکہ سیاسی لیڈروں کو مسئلہ کے سیاسی حل کی طرف بھی گامزن کروائیں، تاکہ ایک حقیقی اور پائیدار امن اس خطے میں واپس آسکے اور کشمیر ایک بار پھر خوشی اور آسودگی کا گہوارہ بن سکے۔(ختم شد)