عنوان اگر آپ کے دلپسند ہوا ہو تو اس کی داد سید الطاف علی بریلوی مرحوم کو دیجیے کہ یہ انہی کا قائم کردہ ہے! اور ذکر تھا علی برادران کا۔ وہی علی برادران، جن کے بغیر، بر ِصغیر کی کوئی سیاسی تحریک، تحریک نہیں بنتی تھی۔ بلکہ اکثر کے محرک، یہ دو بھائی ہوا کرتے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر، چھوٹے بھائی تھے اور مولانا شوکت علی بڑے۔ محمد علی مذاقاً کہا کرتے تھے کہ سگ باش، برادر ِخورد مباش۔ لیکن یہ صرف مذاق ہی رہا۔ حقیقت میں، بڑے بھائی نے، چھوٹے بھائی کو، ہر طرح آگے بڑھایا۔ اس کے پسینے کی جگہ، اپنا خون بہانے کو تیار۔ پھر ملک و قوم کی خاطر، دونوں نے گاندھی جی کی لیڈری قبول کر لی۔ لیکن ایک موقع پر، مولانا جوہر نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے بتا دیا کہ ملکی اور قومی معاملات میں تو خیر، لیکن ایمان و مذہب کے سلسلے میں، ایک مسلمان چمار کو بھی گاندھی جی سے افضل سمجھتا ہوں! کبھی یہ دونوں بھائی اتنے فیشن ایبل بلکہ فیشن زدہ تھے کہ ٹرین کے معمولی سفر کے لیے بھی، کئی سوٹ ساتھ رکھے جاتے اور موقع کی مناسبت سے، زیب ِتن کیے جاتے۔ مثلا ٹرین میں سوار ہوتے ہوئے سوٹ، ٹرین میں سفر کے دوران دوسرا سوٹ، راستے میں رات پڑ جائے، تو سونے کا گائون اس پر مستزاد۔ اور ٹرین سے اترتے ہوے تیسرا سوٹ! انہی دنوں، شوکت علی کے کسی ہم سفر نے، وقت ہو جانے پر، انہیں نماز پڑھنے کی طرف توجہ دلائی۔ شوکت علی کا جواب تھا کہ گھر جا کر پڑھ لوں گا۔ یہاں وضو سے، آستین اور پائنچے گیلے ہو جاتے ہیں! لیکن پھر کایا پلٹ ہوئی۔ اور زمین و آسمان نے وہ منظر بھی دیکھ لیا کہ وہی ریاض، جو تھے بت پرست و بادہ پرست خدا کی یاد میں بیٹھے تھے سر جھکائے ہوئے دونوں بھائیوں نے، انگریزیت کا چولا اتار پھینکا۔ مدرسہ فرنگی محل لکھنؤ سے، دونوں بھائیوں نے دینی علوم کی سند حاصل کر لی۔ اور اپنے مرشد مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے ہاتھ سے، باقاعدہ دستار بند ہوئے! تبھی سے ان کے ناموں کے ساتھ، مسٹر کی جگہ، مولانا کا لاحقہ جڑ گیا۔ حق گوئی اور حق پرستی کا یہ عالم تھا کہ اپنے مرشد سے بھی سیاسی اختلاف ہو گیا۔ اسی زمانے میں انجمن ِخدام ِکعبہ کی بنا ڈالی گئی اور ان کے سینوں پر خادم ِکعبہ کے بیج سج گئے۔ یہ نہ لگے کہ دونوں بھائی کھّْرے "زاہد ِخشک" یا "نرے" لیڈر ہو کر رہ گئے تھے۔ اس کے برعکس، دونوں بھائیوں کی شوخی ِمزاج، فقرے بازی اور طبیعت کی تیزی، دِہ چند ہو گئی۔ ان کے لطیفے، جو واقعے تھے، کسی کتاب میں ہی پورے آ سکتے ہیں۔ دونوں علی گڑھ یونی ورسٹی کے "اولڈ بوائز" میں سے تھے۔ جس کا ترجمہ، مولانا محمد علی نے ’’بوڑھے لڑکے‘‘ کیا تھا(اس خاکسار کے خیال میں ’’پْرانے لڑکے‘‘ زیادہ جامع اور بلیغ ہے!) دو بھائیوں کا ذکر آپ نے سن لیا۔ جن کی گفتار اور کردار میں، یک رنگی ہی نہیں، بے لوثی بھی تھی۔ ملک و قوم اور خصوصاً اپنے ہم مذہبوں کے لیے خود کو مٹا دیا اور اس طرح ع عمر بھر کی بے قراری کو، قرار آ ہی گیا کیوں نہ ہوتا، آخر یہ اماں بی جیسی عظیم ماں کے فرزند تھے! اب دور ِحاضر کے دو بھائیوں کا بھی حال سنیے۔ یہ شریف برادران کہلاتے ہیں۔ یعنی میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف! ان کے والد نے، بڑے میاں کا ہاتھ، ضیاء الحق مرحوم کے ہاتھ میں یہ کہہ کر دیا تھا کہ اب ان کے والد، آپ ہی ہیں! آصف نواز جنجوعہ، چونکہ عمر میں زیادہ بڑے نہیں تھے، ان سے درخواست کی گئی کہ انہیں اپنا چھوٹا بھائی سمجھیے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ چونکہ یہ دونوں بی ایم ڈبلیو کے لیے ضد کر رہے ہیں، بڑے بھائی ہونے کے ناتے، پہلے بی ایم ڈبلیو آپ کو پیش کی جا رہی ہے! یہ تو کاروباری لین دین تھا، ورنہ، انگریزی مقولے کے برعکس، خیراتی کام، یہ دوسروں کے گھر سے شروع کرتے ہیں اور اپنے گھر کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے۔ یہ دونوں بھائی منہ میں، محاوراتی، چاندی کے نہیں، لوہے کے چمچے لیے پیدا ہوئے تھے۔ سیاست، اور خصوصا اقتدار میں آنے سے پہلے، ان کے مالی حالات اچھے ہی نہیں، بہت اچھے ہو چکے تھے۔ لیکن پچھلے پینتیس برسوں میں، ان کی دولت کو گویا پَر لگ گئے۔ کْوے سیاست میں آنے والوں کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ ہم خود کو لْٹا کر بھی، آپ کی خدمت کریں گے۔ مگر جن کی دولت، کئی گْنا بڑھ جائے، ان کو کیا کہیے گا؟ یہ بھی نہیں ہے کہ انہیں کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ بڑے بھائی کے پاس وزارت ِعظمیٰ لگ بھگ دس سال اور وزارت ِعلیا پانچ سال رہی۔ چھوٹے بھائی بھی، خیر سے، لگ بھگ تیرہ برس، پنجاب کے وزیر ِاعلیٰ رہے۔ یہ وزارتیں، ایک آدھ مرتبہ عوام کی حمایت اور بیشتر "خواص" کی مرہون ِمنت رہیں۔ یہ انقلابی ہونے کے بھی دعوے دار ہیں۔ ایک ایسا انقلاب، جو رائیونڈ محل اور ایون فیلڈز کے مکان سے طلوع ہوتا ہے اور عوام کو اپنی صرف جھلک دکھا کر واپس پلٹ جاتا ہے۔ انہیں اب یہ شکایت پیدا ہو گئی ہے کہ دس سال کی وزارت ِعظمیٰ اور اٹھارہ سال کی وزارت ِعلیا کے دوران، انہیں"کام" نہیں کرنے دیا گیا۔ انہیں ایک موقع اور دیا جائے تو اب کی بار، یہ "کام" کریں گے۔ اس ادراک سے یہ دونوں قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے کسوف کا وقت آ لگا ہے۔ جن کی جانب سے ان کے اقتدار کی راہ ہموار کی جاتی تھی، وہ اب ان پر بھرے بیٹھے ہیں۔ مری کے واقعے سے لے کر ڈان کو دئیے جانے والے تازہ انٹرویو سے، ساری بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ ہیں تو یہ پرانے اور گھاگ شکاری۔ مگر ان کے ترکش کے اب سارے تیر، زنگ کھا چکے اور تفنگیں رنجک چاٹ چکیں۔ انہیں پڑھنے لکھنے سے کوئی دلچسپی ہوتی تو گلستان کی یہ حکایت سنا دی جاتی۔ شد غلامی کہ آب ِجو آرد آب ِجو آمد و غلام ببرد دام ہر بار ماہی آوردی ماہی این بار رفت و دام ببرد مختصراً، کبھی مچھلی بھی جال اور مچھیرے، دونوں کو ساتھ بہا لے جاتی ہے! عوامی جلسوں کو اگر پیمانہ اور مقیاس سمجھ لیا جائے، تو کوئی ایک جماعت واضح فتح یا اکثریت نہیں لے پائے گی۔ اسی لیے، اکثر تجزیہ کار، تشویش میں ہیں کہ آنے والی حکومت کمزور ہو گی۔ لیکن اس سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اکثر لوٹے، کینچلی بدل، اِدھر سے اْٹھ اْدھر جا بیٹھے ہیں۔ عوام کے لیے، حق اور ناحق میں تفریق اتنی مشکل ہو گئی ہے کہ جتنی پہلے شاید کبھی نہ تھی۔ زیادہ سے زیادہ، یہ کیا جا سکتا ہے کہ اپنے حلقے میں، سب سے نیک نام اور بہتر امیدوار کو ووٹ دیا جائے۔