ہائے مسلم لیگ!تیرے مقدر پر افسوس۔دور دور تک اس صاحب کردارہستی کی گرد پا بھی اس کے قائدین کے چہروںپر نظر نہیں آتی ۔ ایسے جو اپنے آپ کو اس کا ثانی اور اپنے اپنے ٹولوں کو اس کی میراث قرار دیتے ہیں ۔ان بڑبولوں اور بونوں نے اپنے نام بھی اس صاحب عزیمت قائد اعظم کے ساتھ وابستہ کر رکھے ہیں ۔ مٹی کے حقیر ذروں کا اس کوہ ہمالیہ سے کیا موازنہ جس کی زندگی کے آخری ایام اس حال میں گزرے کہ بیماری سے وزن ۲۷ کلو رہ گیا تھا ۔ سینے کی پسلیاں قمیض سے جھانکتی تھیں لیکن کردار کی عظمت لہجے کی گن گرج میں بولتی تھی ۔ جس کا لباس اس کے کردار کی طرح اجلا اور شفاف تھا اور جس کے لیے کہا گیا تھا۔’’دنیا میں دو لوگ ایسے تھے جنہیں اپنے عمدہ شفاف لباس پر ناز تھا ان میں ایک قائم رہا اوسرا ناکام ۔ جو قائم رہا وہ محمد علی جناح تھا جو ناکام اور ننگا ہوا وہ مسٹر گاندھی تھا۔‘‘ اس صاحب کردار کا ان روبوٹوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے ؟ جس کی توندوں کی چربی اور گردنوں کا سریا تولنے کو ترازو نہیں۔ جن کی اس عوام سے محبت اور ہمدردی کے کوئی شواہد نہیں ۔جو ہمیشہ سے ننگے تھے اور ہر لحاظ سے ننگے ۔قرار داد لاہور پر غور ہو رہا تھا ۔ کمیٹی کے ایک رکن خان رشید احمد نے قائد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہم نے آپ کو قائڈ تسلیم کر لیا آپ جو کہیں گے آنکھیں بند کر کے منظور کر لیں گے۔ قائد کے چہرے پر غصے کے آثار ابھرے اور اس فقرے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ۔’’میںنے مشاورت کے لیے آپ کو بلایا ہے۔ آنکھیں بند کر کے رائے نہ دیں ۔ میں نے ایسا کرنا ہوتا تو اخبار میں صرف بیان جاری کر دیتا ۔ آپ اپنی رائے دیں ڈٹ کر بات کریں میں آپ کا لیڈر ضرور ہوں لیکن مشاورت کا قائل ہوں ۔ مجھے خوشامد پسند ہے نہ خوشامد کرنے والے‘‘ اﷲ کی پناہ ! قائد اعظم ؒکے خود ساختہ جانشین اور ان کی جماعت کے ’’ قائدین ‘‘ ایسے ہی دوستوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو صبح و شام انہیں مکھن سے مساج کرتے رہیں ۔ لوٹ مار ‘ اقربا پروری اور بد عنوانی کے خوگر ان رہزنوں کے کرتوت جوں جوں نمایاں ہوتے جاتے ہیں توںتوں محمد علی جناح کی عظمت کردار نکھرتی جاتی ہے ۔ وہ قائد اعظم ؒجسے ہوس اور لالچ چھو کر نہیں گزرا تھا ۔ جس کے بارے میں مخالفین بھی اعتراف کرتے تھے ‘ اور اسے کردار کا ہمالیہ اور نہ بکنے والا کہتے تھے۔ حیرت ہے ان کی جماعت کے لا تعداد رہنما فروخت در فروخت ہوتے چلے گئے ۔ ’’ My Leader‘‘ کے مصنف زیڈ اے سلہری نے لکھا۔ ’’ بہت دن نہیں گزرے قائد اعظم کو امن کا فرشہ اور اتحاد بین المسلمین کا سفیر مانا جاتا تھا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ مسلمان کا بحیثیت مسلمان جینے کے قائل ہیں وہ غلام بن کر ‘ دب کر رہنے کا خوگر نہ تھا۔‘‘ وہی قائد جس نے کھوٹے سکوں کی موجودگی کو مسلم لیگ کے لیے خطرناک قرار دیا تھا۔ قیادت کو وراثت نہیں بنایا نہ وراثت میں قیادت پائی ۔ محض بے باکی جرأت صلاحیت اور کردار نے انہیں کروڑوں دلوں کی دھڑکن بنا ڈالا تھا۔ وہ منصب کے ساتھ چمٹے رہتے تو کس کی جرات تھی ہٹا سکتا تھا۔ انہوںنے کتنی مرتبہ پہلو جھاڑ کر مثال قائم کی ۔ ستم تو یہ ہے کہ اس کے ماننے والے معمولی سے معمولی منصب کے ساتھ چمٹے رہنے اور اس بقاء کی خاطر قومی مفاد دائوپر لگانے کو تیار ہیں ۔و ہ دس کروڑ انسانوں کی قیادت کے لیے تنہا تھا لیکن اب پچیس کروڑ میں دوکروڑ لیڈر ہیں اوران کو کوئی فرد قائد ماننے کو آمادہ نہیں ۔علامہ شبیر احمد عثمانی نے کہا تھا۔ ’’ اورنگز یب کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان لیڈر پیدا نہیں کیا جس کے استقلال ‘ غیر متزلزل ارادے ‘ پختہ کردار نے دس کروڑ شکست خوردہ مسلمانوں کوکامرانیوں سے نوازا۔‘حد یہ ہے کہ آج اس کے بزعم خود جانشینوں نے پچیس کروڑ کے گلے گھونٹ دیے ہیں پھر بھی ان کی جاں کو سکون نہیں۔مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی نے قائد اعظم ؒسے ملاقات کے بعد فرمایا ۔’’ محمد علی جناح منصب اور ناموری کا دلدادہ نہیں وہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ تن من دھن کے ساتھ انقلابی جدوجہد کر رہا ہے ۔ ایسے ہی لوگ امر ہو جاتے ہیں اور ایسے ہی رہنما ڈوبتی نائو کو کنارے سے لگاتے ہیں ‘ ‘خلوص کا ذکر چھڑا تو ملاحظہ ہو ‘ تاریخ میں قائد اعظم ؒکا سب سے بڑا حریف مہاتما گاندھی بھی چپ نہیں رہ سکا ۔’’ جناح کا خلوص مسلم ہے ۔ وہ بہترین انسان ہیں ۔ میرے پرانے ساتھی ہیں میںانہیں زندہ باد کہتا ہوں ۔‘‘ سکھوں کے رہنما ماسٹر تارا سنگھ نے کہا ۔’’ قائد اعظم نے مسلمانوں کو غلامی سے نجات دلائی اگر یہ شخص سکھوں میں پیدا ہوتا تو اس کی پوجا کی جاتی ۔‘‘ ’’جناح آف پاکستان ‘‘کے مصنف پروفیسر اسٹینلے نے کہا ۔’’ کم لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیں ۔ ایسے لوگ تو بہت ہی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل دیں اور ایساتو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نیا ملک قائم کر دے ۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت تھے جنہوںنے تینوں کارنامے ایک ساتھ کر دکھائے۔‘‘ کبھی انسان سوچتا ہے کیا یہ ملک حاصل کر کے قائد اعظم نے غلطی کی تھی ۔ گاہے انسان سوچتا ہے قائد اعظم نے مسلم لیگ میںشامل ہو کر غلطی کی اور کبھی حسرت سے کہتا ہے کہ کاش! یہ مسلم لیگ آمروں کے ہاتھوں استعمال نہ ہوئی ہوتی ۔ کس کس نے اس کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا؟کس کس نے اسے ٹشو پیپر کے طو رپر استعمال کیا ۔کون کون اس کا قائد رہا ۔ کرب کی لہر اٹھتی ہے جب کوئی بتاتا ہے کہ فلاں اس کا قائد ہے ۔ ان بے چاروں کے چہروں پر قائد کے کردار کی کوئی جھلک کوئی رمق ‘ قائد کی جرات کا کوئی شائبہ کوئی علامت نظر نہیں آتی۔ ایوب خان سے پرویز مشرف اور اس سے آگے، برسوں میں اس ’’ مظلومہ ‘‘ کے ساتھ کیا کیا نہ ہوا ۔ ایک مشق ہے جو آمروں سے شروع ہو کر آمروں پر ختم ہوتی ہے ۔ کاش ہمارے ان قائدین کے چہروں پر قائد اعظم ؒ کے پائوں کی گرد ہی پڑی ہوتی تو آج یہ قوم اس انجام کا شکار نہ ہوتی۔