امریکی اخبار نیویارک ٹائمزنے 26دسمبر 2021کواپنے سرورق پر اس خبر شائع کیا ۔امریکی اخبار نے لکھاکہ ہندو انتہا پسند مسیحی کمیونٹی کو زبردستی ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبورکر رہے ہیں۔ مسیحیوں کے چرچوںکو نقصان پہنچانے کے علاوہ عیسائیوںکو وہاں جانے سے روکتے ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں نے موت کے خوف سے خود کو ہندو ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ اخبار لکھتاہے کہ بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھارتی وزیراعظم مودی کی خاموشی پر عالمی برادری کو شدید تحفظات ہیں۔ گڑ گاؤں میں کرسمس کی تقریبات پر حملہ کر کے رکوا دیا۔ آر ایس ایس کے غنڈوں نے انتہا پسندی پر مبنی نعرے بھی لگائے۔ آگرہ میں سانتا کلاز کا پتلا نذر آتش کیا گیا۔ سانتا کلاز کا لباس پہننے پر سخت نتائج کی دھمکی دی گئی ہے۔ بھارتی ریاست کرناٹکا میں سکول میں ہونے والی کرسمس کی تقریب کو بزور طاقت رکوا یا گیا۔ سکول انتظامیہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں ۔ یوں تو گزشتہ 73سال سے بھارت میں اقلیتوں کا استحصال کیا جا رہا ہے تاہم جب سے نریندر مودی نے زمام اقتدار سنبھالی، اقلیتوں کا مستقبل مزید داؤ پر لگا دیا گیااور ان پر زمین ہند تنگ کر دی گئی۔ تمام مذاہب کے خلاف ہندوؤں کی متعصبانہ کارروائیوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہو اہے۔ ایک طرف پورے بھارت میں مودی سرکار کے مکمل تعاون اورعملی مدد کے ساتھ بھارت میں مسلمان مکائو مہم زوروں پر ہیتو دوسری طرف بھارت کے مسیحی بھی آرایس ایس اوراسکی ذیلی تنظیموںکے رحم و کرم پر ہیں۔مسیحیوں کے چرچ مسمار کرنا، جلانا، انکی کتابوں کو ردی کی نذرکرنا,خوف و ہراس پر مشتمل تحریری مواد مسیحی آبادیوں میں تقسیم کرکے انہیں ہراساں کیاجانااورانہیں زبردستی ہندوبناناآرایس ایس اوراسکی ذیلی تنظیموں یعنی ’’سنگھ پریوار‘‘کے ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔ آرایس ایس کا خیال ہے کہ اکھنڈ بھارت کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بھارت کے مسلمانوں،مسیحیوں،سکھوں اوردیگر تمام اقلیتوں کو ختم نہ کر دیا جائے۔ 2014 ء میں جب مودی بھارت میں برسراقتدار آئے تب سے بھارت میںمسیحوں کے ساتھ ہورہے ظالمانہ سلوک میں شدت واقع ہوئی ہے۔دارالحکومت دہلی کے بڑے گرجا گھر سینٹ سیستان چرچ کو آگ لگاکر اسے خاکسترکردیاگیا۔ دہلی میں ہی ایک اور چرچ میں توڑ پھوڑ کی گئی اوراس میں نصب مجسموں کو توڑیاگیا۔ چر چ میں لگے خفیہ کیمرے کی آنکھ نے حملہ آوروں کا ریکارڈ محفوظ کر لیا مگر ریاستی اداروں نے پھر بھی مجرموں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا۔ دہلی میں ہی مسیحی سکول ہولی چائلڈ پر بھی حملے ہوئے اور پولیس و دیگر ادارے ملزموں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں رہے۔ اس سے قبل ریاست کیرالہ، آندھرا پردیش میں درجنوں گرجا گھروں پر بم برسائے گئے اور مسیحی قبرستانوں کو اکھاڑ دیا گیا۔ایسے واقعات کے خلاف جب بھی مسیحیوں نے احتجاجی جلو س نکالا اور احتجا ج کیا تو ان پر ریاستی اداروں نے مظاہریں پر چڑھائی اور ان پرتشدد کیا، جیلوں میں ڈال دیا۔ اگرچہ بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) اورامریکی اخبارات بھارت میں اقلیتوں پرہو رہے مظالم کوطشت از بام کرتے رہے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ مسلسل بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر تحفظات کا اظہار کرتے چلاآرہا ہے کہ مودی کی مکمل آشیرباد سے حکمران جماعت آرایس ایس کو اقلیتوں پر حملہ کروا رہی ہے۔جبکہ بھارتی انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کو قتل کرنیکی کھلے عام دھمکیوں پر مودی سرکار کی خاموشی کو امریکی اخبار نے ہدفِ تنقید بنایا ہے۔جبکہ 29 اپریل، 2020ء کوامریکا کے کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی نے بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے اسے بلیک لسٹ کرنے کی سفارش کی تھی۔ رپورٹ میں بتایاگیاکہ مودی سرکار کے شہریت ترمیمی ایکٹ نے مسلمانوں کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے، بھارت کے چار سالہ نیشنل رجسٹریشن پروگرام کی تکمیل کے بعد لاکھوں بھارتی مسلمانوں کو قید وبند، جلاوطنی اور ریاستی شناخت کھونے جیسے خطرات کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں مذہبی آزادی کو پامال کرنے والے بھارتی اداروں اور حکام پر سفری پابندیاں لگانے اور امریکا میں ان کے اثاثے ضبط کرنے کی سفارش کی گئی ہے اورتواورخود امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس امرکا بار ہا اعتراف کیا کہ ہم اس امر سے یقینی طور پر آگاہ ہیں کہ بھارت میں اجتماعی طو ر پر تمام اقلیتیں اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔لیکن یہ سارازبانی جمع خرچ ثابت ہواہے کیونکہ امریکہ اپنے چہیتے پرعملی طور پراس حوالے سے کوئی باز پرس نہیں کی۔ 17 تا 19 دسمبر 2021ء کے مابین دہلی کے کنارے پر آباد ہندو مت میں مقدس سمجھے جانے والے شمالی شہرکے ہریدوار میںآرایس ایس اوربجرنگ دل کی طرف سے’’اسلامی ہندستان میں سناتن دھرم: مسائل اور حل ‘‘کے عنوان سے ایک سہ روزہ میلہ منعقدکیا گیا جس میں مقررین نے نہ صرف مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز اور منافرت پر مبنی تقاریر کیں، بلکہ بھارتی مسلمانوں کے قتل عام پر کھلم کھلااکسایا گیا اور ہندو غنڈوںکو مسلح کرنے پر زور دیا۔خاتون انپور نا ماں نے کہا کہ ہندو مسلمانوں کو ہلاک کر کے جیل جانے سے مت گھبرائیں۔جلسے میں اسی خاتون نے لوگوں کو تلقین کی کہ وہ ’’ناتھو رام گوڈسے‘‘ کو سراہا کریں۔ ناتھو رام گوڈنے1948ء میں گاندھی کو قتل کیا تھا۔اس میلے میں ایک اور مقرر نے کہا کہ میانمار کی طرح ہندوستان میں فوج، پولیس، لیڈر اور ہر ہندوستانی ہرہندو شہری کا ہندوستان میں رہ رہے مسلمانوںکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے صفائی مہم میں شامل ہونا چاہیے۔