چند دن پہلے خریداری کے سلسلے میں بازار جانا ہوا پیدل چلنے کو ترجیح دیتے ہوئے چل پڑے لیکن کچھ ہی دیر بعد یوں محسوس ہوا کہ غلطی کردی اچھا تھا گاڑی ہی لے آتے۔ بازار تک پیدل پہنچتے پہنچتے یوں لگا کسی زگ زیگ نما راستے پر گامزن ہیں کہ ہمہ وقت دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہوتے ہوتے دماغ چکرا گیا۔ سڑکوں پہ گاڑیوں کا بے پناہ رش، موٹر سائیکل سواروں کی اندھا دھند تیزرفتاری ، بسوں اور ویگنوں کی بھرمار نے عجیب سی بے چینی پھیلائی ہوئی تھی۔ روڈ کراس کرتے ہوئے شدید دقت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کوئی راستہ دینے کو تیار نہیں تھا۔ مجال ہے کوئی گاڑی والا، موٹر سائیکل سوار، رکشے ویگن والا پیدل چلنے والوں کا احساس کر لے۔ یوں لگ رہا تھا کہ سبھی ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہوئے بھی گتھم گتھا ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات کے حوالے سے روز اندوہناک خبریں دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ہم اخبارات و رسائل میں ایسی خبر ضرور دیکھتے ہیں کہ فلاں علاقے میں بس الٹ گئی، فلاں علاقے میں گاڑی کھائی میں جا گری، فلاں جگہ ٹرک ٹرالے کے تصادم سے اتنے لوگ جاں بحق ہو گئے یا فلاں سڑک پر ویگن نے پیدل چلنے والے کو کچل ڈالا۔ ایسی خبریں معمول کا حصہ بن چکی ہیں لیکن مجال ہے بحیثیت قوم ہم کوئی سبق سیکھیں یا عقل و شعور کا استعمال کرتے ہوئے اپنی حرکات درست کر لیں۔ سڑک پر تیزرفتاری کی وجہ سے ہونے والے حادثات کی وجوہات پر میں بارہا لکھ چکا ہوں لیکن پیدل چلنے والوں کی وجہ سے کتنے حادثات ہوتے ہیں یا پیدل چلنے والوں کے مسائل و مشکلات کیا ہیں ان پر بات کرنا بھی ناگزیر ہے۔ یقیناً اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں خصوصاً بڑے میٹرو پولیٹن شہروں میں سڑک کنارے پیدل چلنا موت کے کنویں میں چلنے کے مترادف ہے۔ بڑی بڑی کشادہ سڑکوں پر شاید گاڑیوں کی تو گنجائش نکل آئے لیکن پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ، کوئی راستہ نہیں، کوئی سہولت میسر نہیں۔ بڑے شہروں کی تقریباً 84 فیصد سڑکیں ایسی ہیں جن پر فٹ پاتھ یا زیبرا کراسنگ سرے سے موجود ہی نہیں اور اگر کہیں فْٹ پاتھ موجود ہیں تو ان پر ریڑھی والے اور ٹھیلے والوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ رہی سہی کسر ناجائز تجاوزات اور غلط پارکنگ نے پوری کر دی ہے اور یوں پیدل چلنے والوں کے لیے پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں۔ مختلف سواریوں پر سوار لوگ ذرا پرواہ نہیں کرتے کہ پیدل چلنے والوں کا پہلا حق ہے اور انہیں راستہ دینا انکی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ بڑی گاڑی والا چھوٹی گاڑی والے کو اور چھوٹی گاڑی والا موٹر سائیکل سوارکو کیڑے مکوڑے کی طرح روندتا ہوا نکل جاتا ہے اور موٹر سائیکل سواروں کے تو کیا ہی کہنے ! وہ تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور کسی خطرناک پھرتیلے سانپ کی طرح ہر تنگ و تاریک راستے سے گزرتے چلے جاتے ہیں۔ ہماری حکومتیں اربوں خرچ کرکے سڑکیں تو بنا دیتی ہیں لیکن اس بات کا ذرا خیال نہیں رکھا جاتا کہ پیدل چلنے والوں، سائیکل اور موٹر سائیکل سواروں کے لئے الگ ذیلی راستے مختص کیے جائیں اور ہر چھوٹی بڑی شاہراہوں کیساتھ الگ سے گزر گاہیں تعمیر کی جائیں اور فٹ پاتھ بنائے جائیں۔ اسکے برعکس باقی دنیا میں پیدل چلنے والوں کو سب سے ذیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ انکے حقوق اور آزادی کا خیال کیا جاتا ہے اور انہیں اولین ترجیح دیتے ہوئے فورا راستہ فراہم کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر کہیں پیدل چلنے والوں کے لیے اوور ہیڈ برج بنایا گیا تو اسکا استعمال کرنے کی بجائے وہ گرین بیلٹ کو پھلانگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں یا لوہے کی جالیوں کو توڑ کر سڑک کراس کرتے ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک کے نظام ، قوانین اور انکے اطلاق اور روڈ سیفٹی پر ریسرچ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر ایک طرف نظام ناقص اور سہولیات کا فقدان ہے، وہیں عوام کی لاپرواہی اور غفلت بھی شامل ہے ،لوگوں کی اکثریت کا عدم تعاون بھی حادثات کی بنیادی وجوہات میں شامل ہے۔ ہر بات اور ہر حادثے کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر عوام بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ عوام کسی صورت اپنا رویہ درست کرنے پر تیار نہیں اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر راضی نہیں۔ ایک ذمہ دار قوم کی طرح ہمیں اپنے ساتھ دوسروں کے تحفظ کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ٹریفک حادثات میں نمایاں کمی تب تک رونما نہیں ہوگی جب تک عوام اسکو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ہر بار نظام کو مورد الزام ٹھہرانا اپنی ذمہ داری سے جان چھڑانے کے مترادف ہے۔ لاہور اور اسلام آباد جیسے گنجان آبادی والے شہروں میں ٹریفک پولیس اور پاکستان سیف سٹیز اتھارٹیز کیساتھ کام کرتے ہوئے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ بلاشبہ لوگوں کا غیر سنجیدہ رویہ ہی ٹریفک حادثات کی بنیادی وجہ ہے۔ ٹریفک کا نظام جتنا بھی جدید اور سمارٹ کر دیا جائے جب تک لوگ عمل نہیں کریں گے ، تعاون نہیں کریں گے، بہتری ناممکن ہے۔ لہذا اس ضمن میں سب سے پہلا اور بنیادی کام تعاون اور احساس کا ہے۔ سڑک پر آتے ہی اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا احساس کریں اور راستہ دینے میں تعاون کریں۔ ٹریفک قوانین پر سختی سے کار بند رہ کر قانون کا احترام کریں۔ گاڑی والا پیدل چلنے والے کو راستہ دے کر تعاون کرئے اور پیدل چلنے والا شارٹ کٹس کی بجائے سیدھا راستہ منتخب کرئے۔ جہاں کہیں ٹریفک اشارے موجود ہیں ان کی پابندی کریں۔ تیزرفتاری اور جلدبازی سے گریز کریں۔ رات کے اوقات میں گاڑی کی لائٹس کا لازمی استعمال کریں تاکہ پیدل چلنے والوں کے علاؤہ دیگر لوگ بھی چوکنا رہیں۔ سڑک پر جانے سے پہلے اپنی نیند مکمل کریں۔ موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ کا استعمال لازمی کریں اور دائیں بائیں مڑتے ہوئے اشاروں کا استعمال ضرور کریں۔ یہ انتہائی سادہ باتیں ہیں جن پر عمل کرکے ہم دوسروں کیساتھ خود کو بھی تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔ دوسروں کو راستہ دینے میں پہل کر کے خود غرضی اور جلدبازی کی بجائے سنجیدگی اور احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم انسان ہونے کا ثبوت دیں تو یقیناً ایک مہذب معاشرہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔