مولانا وحید الدین خان اپنی کتاب'' راز حیات'' میں لکھتے ہیں کہ ان کے زمانہ طالبعلمی میں آبائی شہر میں ایک معروف حکیم صاحب ہوا کرتے تھے انتہائی شریف اور خد ترس انسان تھے لوگ ہندوستان بھر سے ان کے پاس علاج و معالجہ اور اپنی پیچیدہ امراض کی تشخیص کیلئے آیاکرتے تھے۔ ایک روزایک شخص حکیم صاحب کے پاس آیا وہ علاج کیلئے نہیں بلکہ اپنی کسی ''ضرورت'' کو پورا کرنے کیلئے آیاتھا اسے حکیم صاحب کی مالی حیثیت اور شخصیت کا پورا علم تھا اس نے حکیم صاحب کے سامنے بیٹھتے ہی ایک ڈبہ کھولا اس میں زیورات تھے اس نے بڑے مودبانہ انداز میں حکیم صاحب کو بتایا کہ قبلہ حکیم صاحب یہ سونے کے زیورات ہیں اور ان کی قیمت سکہ رائج الوقت دس ہزار سے کم نہیں اور اسے اس وقت صرف پانچ ہزار روپے کی ضرورت ہے وہ ان زیورات کو فروخت نہیں کرنا چاہتا ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں اسے پانچ ہزار روپے مل جائیں لیکن اسے فوری پانچ ہزار روپے کی ضرورت ہے ،حکیم صاحب!ان زیورات کے ڈبہ کو اپنے پاس ضمانت کے طور پر رکھ لیں اور اسے پانچ ہزار دیدیں تاکہ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرسکے۔ اس کی گفتگو میں عاجزی و انکساری کا عنصر نمایاں تھا لیکن اس کے باوجود حکیم صاحب نے اس کی بات ماننے سے انکار کردیا لیکن اس نے حکیم صاحب کی سادگی کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پے در پے اس طرح وار کئے کہ حکیم صاحب کو ترس آگیا اور انھوں نے اس آدمی کو پیسے دے کر زیورات کا ڈبہ لے لیا اور اسے اپنی سیف الماری میں امانت کے طور پر رکھ دیا۔حکیم صاحب نے اس آدمی کے جانے کے بعد ڈبہ میں موجود زیورات بارے کوئی چھان بین نہیں کی ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن وہ آدمی واپس نہ آیا طویل انتظار کے بعدحکیم صاحب نے سیف الماری کھولی اور زیورات کا ڈبہ نکال کر اسے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا انھوں نے یہ ڈبہ اپنے ایک آدمی کو دیا تاکہ وہ اسے سنارکو فروخت کر آئے یہآدمی زیورات کا ڈبہ فروخت کرنے کیلئے جیولری کی دکان پر گیا سنار نے ڈبہ کھولتے ہی زیورات کی اصلیت بارے بتا دیا کہ یہ پیتل کے زیورات ہیں۔ حکیم صاحب کا آدمی فوری انکے پاس آیا اور زیورات کی اصلیت بارے آگاہ کیا۔حکیم صاحب کو صدمہ ہوا تاہم روپے کھونے کے بعد وہ اپنے آپ کو کھونا نہیں چاہتے تھے انھوں نے اس واقعہ کو بھلا دیا صرف یہ کیا کہ زیور کو سونے کے خانے سے نکال کر پیتل کے خانے میں رکھ دیا اور پھر اپنے عظیم مقصد کے حصول میں مگن ہوگئے۔ یہ اس دور کا واقعہ ہے جب پانچ ہزار کی بڑی قدر ہوا کرتی تھی بظاہر یہ ایک بڑا صدمہ تھا لیکن یہ صدمہ انہیں ان کے عظیم مقصد کے حصول سے دور نہ کرسکا۔ انسانوں کے معاملات کیلئے بھی یہ طریقہ بہترین ہے انسانوں کے درمیان تلخی اکثر اس لیے پیدا ہوجاتی ہے کہ ایک آدمی سے جو امیدیں قائم کر لی جاتی ہیںوہ پھر ان پر پورا نہیں اترتا ایسے موقع پر بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی کو ایک خانے سے نکال کو دوسرے خانے میں ڈال دیا جائے اور اپنے دل کو روگ نہ لگایا اور نہ ہی اپنے آپ کو مایوسی کا شکار کیا جائے۔ آج ہماری قوم بھی کچھ اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہے۔ قوم کی بھی کچھ امیدیں تھی لیکن کوئی بھی حکمران اس پر پورا نہیں اترا۔اس کا ہرگز مقصد یہ نہیں کہ اپنے آپ روگ لگا لیا جائے یا پھر اپنے آپ کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا جائے بلکہ صرف اپنے دل میں مایوس کرنے والوں کاخانہ تبدیل کردیا جائے اور پھر اپنے مقصد کی طرف بڑھا جائے۔ امید کی کرنیں ہمیشہ طلوع ہوتی ہیں لیکن اس سے فائدہ صرف اور صرف بیدار مغز اور با مقصد لوگ ہی اٹھاسکتے ہیں۔ عروج و زوال ہر قوم کی زندگی کا حصہ ہیں۔ قوم اسے کہا جاتا ہے جواپنی ناکامی یا ناگفتہ بہ حالات سے مایوس نہ ہو،ناکامی یا کامیابی ، فتح و شکست زندگی کے میلے ہیں تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ہر ذی روح کی کامیابی یا ناکامی کا پیمانہ مختلف ہے۔ جاپانی قوم ہیرو شیما اور ناگاساکی پر بمباری کے بعد بھی مایوس نہیں ہوئی کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ قوم دوبارہ زندہ ہوسکے گی۔ جاپانی قوم نے حالات کا مقابلہ کیا اور اپنی ناکامی کو بھی کامیابی میں بدل دیا اور سبق حاصل کہ کبھی بھی طاقتور بدمست ہاتھی سے ٹکر نہ لی جائے بلکہ ترقی کے میدان میں مسلسل آگے بڑھا جائے۔ جاپانی قوم نے اپنے آپ کو معاشی میدان میں آگے بڑھایا آج ایشیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں جاپان کی معیشت اپنی مثال آپ ہے۔ چند روز قبل ایک دوست سیدفاروق شاہ سے ملاقات ہوئی ماشاء اللہ کامیاب بزنس مین ہیںانھوں نے کاروبار میں کامیابی کا ایک ہی گر بتایا کہ وہ کبھی بھی پیسے کی خاطرکسی سے لڑتے نہیں ان کا مقصد رزق حلال کا حصول ہے وہ رزق حلال کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں یہ ہی ان کی کاروبار میں کامیابی کا راز ہے۔ آج ہماری قوم نے مقصد کا شعور کھو دیا ہے وہ ایک بے مقصد گروہ بن کر رہ گئے ہیںان کے سامنے نہ دنیا کی تعمیر ہے اور نہ ہی آخرت کی کامیابی، یہ ہی ہماری اصل کمزوری ہے اگر دوبارہ مقصد کا شعور زندہ کردیا جائے وہ دوبارہ ایک جاندار قوم نظر آئیں گے وہ دوبارہ ایک باکردار گروہ بن جائیں گے جس طرح وہ اس سے پہلے ایک باکردار گروہ بنے ہوئے تھے۔ قوم کے افراد میں مقصد کا شعور پیدا کرنا آدمی کی چھپی ہوئی قوتوں کو جگاتا دیتا ہے،وہ ایک انسان کو نیا انسان بنا دیتا ہے، یاد رکھئے! ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم ایک با مقصد قوم تیار کریں۔ہمیں قوم کے افراد کو وہ تعلیم دینا ہے جس سے وہ اپنے ماضی اور حال کو پہچانیں گے ان میں وہ شعور بیدارہو گا کہ اختلاف کے باوجود متحد ہوا جائیں۔ وہ حوصلہ ابھارنا ہے کہ وہ شخصی مفاد ا ت اور وقتی جذبات سے آگے بڑھ کر ملک و قوم کی خاطر قربانی دے سکیں۔ ٭٭٭٭٭