بھارت میں رواں سال ہونے والے عام انتخابات میں چند ماہ ہی باقی ہیں جس میں نریندر مودی تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے خواہاں ہیں۔بھارت ہیٹ لیب نے 2023ء میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے 668 نفرت انگیز واقعات کو دستاویزی شکل دی۔گروپ نے 2023ء کی پہلی ششماہی میں 255 واقعات ریکارڈ کیے جب کہ سال کی دوسری ششماہی میں یہ تعداد بڑھ کر 413 واقعات تک پہنچ گئی جس میں 62 فیصد اضافہ ہوا۔ ایسے واقعات زیادہ تر ان ریاستوں میں پیش آئے جہاں ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومتیں قائم ہیں۔مسلم مخالف نفرت انگیز بیانات 2023ء میں اگست سے نومبر تک عروج پر تھے یہ ایک ایسا عرصہ تھا جب بھارت کی چار اہم ریاستوں میں انتخابات کے دوران سیاسی مہم اور ووٹنگ کے مراحل جاری تھے۔ مغربی ریاست مہاراشٹرا سب سے زیادہ متاثر ہوئی جہاں ایسے تقریباً 118 یا 18 فیصد واقعات پیش آئے حالانکہ یہاں بھارت کی صرف 9.3 فیصد آبادی رہتی ہے۔نفرت انگیز تقریر کے تقریباً 104 واقعات صرف اتر پردیش میں پیش آئے جہاں تین کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔ وسطی بھارت میں مدھیہ پردیش ریاست میں 65 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ دیگر چھوٹی ریاستوں جیسے ہریانہ اور اتراکھنڈ میں بھی نفرت انگیز تقریر کے واقعات دیکھنے میں آئے۔ تقریباً 216 یا 32 فیصد نفرت انگیز واقعات انتہائی دائیں بازو کے ہندو مذہبی گروپ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل نے منظم کیے ہیں۔دونوں گروہوں کا تعلق سنگھ پریوار سے ہے جو نیم فوجی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی قیادت میں مختلف ہندو قوم پرست تنظیموں کا ایک اجتماعی نام ہے۔ بی جے پی اس نیٹ ورک کے سیاسی ونگ کے طور پر کام کرتی ہے۔ گروپ کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے اعداد و شمار کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے تشکیل دی گئی ہیٹ سپیچ کی تعریف کا استعمال کیا جس میں مذہب، نسل، قومیت، نسل یا جنس سمیت صفات کی بنیاد پر کسی فرد یا گروہ کے لیے متعصبانہ یا امتیازی زبان کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایک جامع ڈیٹا بنانے کے باوجود اعداد و شمار کا یہ سیٹ بھارت میں نفرت انگیز واقعات کا مکمل احاطہ نہیں کرتا۔ بھارت میں گذشتہ سال مسلمانوں کے خلاف ہر روز اوسطاً دو نفرت انگیز تقاریر کے واقعات پیش آئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقریر کو تاریخی طور پر کمیونٹیز کے خلاف قتل و غارت اور نسل کشی سمیت شدید مظالم کے لیے ایک اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔ نفرت انگیز تقاریر کے کل 668 واقعات میں سے 63 فیصد نے اسلامو فوبک سازشی نظریات کا حوالہ دیا۔ان نظریات میں ’لو جہاد‘ سمیت بے بنیاد الزامات کا ایک سلسلہ شامل ہے۔ ’لو جہاد‘ بے بنیاد سازشی نظریہ ہے جس میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلمان مرد ہندو خواتین کو شادی کے ذریعے اسلام قبول کرنے پر آمادہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح ’لینڈ جہاد‘ کے ذریعے مسلمانوں پر مذہبی عمارتوں کی تعمیر یا نماز کے انعقاد کے ذریعے عوامی زمینوں پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے، ’حلال جہاد‘ کو اسلامی حلال طریقوں کے ذریعے اقتصادی طور پر غیر مسلم دکانداروں کو دور کرنے کی سازش کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ’آبادی جہاد‘ میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلمان جان بوجھ کر اپنی شرح پیدائش میں اضافہ کر رہے ہیں جس کا مقصد دوسری کمیونٹیز کی آبادی کو پیچھے چھوڑنا اور بالآخر پورے ملک پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ’صرف پانچ سپیکرز 146 نفرت انگیز تقریر کے واقعات میں سے 22 فیصد کے ذمہ دار تھے۔‘ نفرت انگیز تقاریر کے تقریباً 100 واقعات میں نمایاں طور پر بی جے پی سے وابستہ رہنما ہی شامل تھے۔2023ء میں نفرت انگیز تقاریر کے واقعات کے تجزیے کے مطابق 169 واقعات میں ایسی تقاریر شامل تھیں جن میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ حالیہ مہینوں میں ہندو سادھوؤں کے کئی پروگراموں میں ہندوؤں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی گئی اور بعض مقررین کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی کی کال دی گئی۔رواں ماہ کی دو تاریخ سے لے کر اب تک متعدد ریاستوں میں پرتشدد واقعات ہوئے ہیں۔ ہندوؤں کا الزام ہے کہ ان کے مذہبی تہواروں کے موقع پر نکالے جانے والے جلوسوں پر مسلمانوں کے پتھراؤ کی وجہ سے یہ واقعات ہوئے۔جب کہ مسلمانوں کا الزام ہے کہ ہندوؤں کے مذہبی جلوسوں کے دوران ہتھیاروں کی نمائش ہوتی ہے۔ جان بوجھ کر جلوس مسلم علاقوں سے گزارے جاتے ہیں اور مسجدوں کے باہر رک کر اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے جب کہ مساجد میں داخل ہونے اور وہاں زعفرانی پرچم لہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔گزشتہ دنوں رام نومی کے جلوس کے دوران تقریباً ایک درجن ریاستوں میں پرتشدد واقعات ہوئے اور مسجدوں پر زعفرانی پرچم لہرانے کے واقعات پیش آئے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ آر ایس ایس سے وابستہ افراد کا خیال ہے کہ بھارت کو ہندو اسٹیٹ بنانے کا وقت آ گیا ہے اور یہ ساری سرگرمیاں اسی مقصد سے کی جا رہی ہیں۔ تاہم حکومت کے بعض ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ملک میں آئین کی حکمرانی ہے اور حکومت آئین کے تحت چل رہی ہے۔