جی 20 سمٹ 10 اور 11 ستمبر کو انڈیا میں ہوئی ۔اس میں یورپی یونین کے علاوہ 19 ممالک نے شرکت کی جس میں ایشیا سے چین ،جاپان شمالی کوریا ،انڈونیشیا ،انڈیا ،سعودی عرب اور ترکی کے ممالک شامل تھے جبکہ آسٹریلیا اور ساؤتھ افریقہ بھی شریک ہوئے ۔امریکہ، کینیڈا میکسیکو، ارجنٹائن اور برازیل بھی اس کانفرنس کے شرکا میں سے تھے جبکہ یورپ کی طرف سے یورپی یونین، برطانیہ، فرانس ،جرمنی ،اٹلی اور روس نے شرکت کی۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اس کانفرنس کے میزبان تھے۔ اس کانفرنس کا ایجنڈا تھا ایک زمین ایک خاندان اور ایک مستقبل۔ کانفرنس میںبہت سے موضوعات پر بات ہوئی جس میں روس اور یوکرین کی جنگ بند کرانے، ایک مضبوط متوازن نمو پاتی ہوئی عالمی اقتصادی صورتحال کی بات کی گئی۔ گرین ہاؤس گیسوں ،بے روزگاری کے خاتمے پر بھی بات ہوئی اور ماحولیات پر کافی زور دیا گیا اور اس طرح مصنوعی ذہانت کے موضوعات بھی کانفرنس میں زیر بحث آئے۔ انڈیا سے مشرق وسطیٰ اور مشرق وسطیٰ سے یورپ اور یورپ سے امریکہ تک کا تجارتی کوریڈور پر بھی بات چیت ہوئی اور فوڈ سکیورٹی اور انرجی کی انسکیورٹی پر بھی بات ہوئی جبکہ بائیو فیول کے استعمال کے کلچر کو فروغ دینے پر بھی تبادل خیال کیا گیا ۔ کانفرنس میں بڑے بڑے دعوے کیے گئے اور کافی بڑی تجاویز پیش کی گئی لیکن اگر ہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو جتنے دن یہ کانفرنس ہوئی انڈیا میں سکول اور کالج بند تھے، مارکیٹیں بند تھیں اور بہت سی کچی آبادیوں کو ختم کر دیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں انڈیا کا کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا، سوائے بھارتی وزیر اعظم مودی کی تصاویر کے جو کہ ہر دس دس فٹ کے فاصلے پر سڑکوں پر پر آویزاں تھی ۔بھارت اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار قرار دیتا ہے اور اپنے آپ کو وہ سب سے بڑی جمہوریت کہتے ہیں لیکن اس کانفرنس سے چند دن پہلے مسلمانوں پر حملے کیے گئے اور دلی کے نواح میں گڑ گاؤں میں مسجد کے ایک امام صاحب کو شہید کر دیا گیا ۔وشوا ہندو پریشد کی ایک شاخ بجرنگ دل نے ہریانہ میں ہندو مسلم فسادات کو ہوا دی۔ مودی اس کانفرنس کے ذریعے ظاہری طور پر دنیا کے سامنے انڈیا کا امیج بہتر بنانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اصل میں وہ انڈیا میں اپنا امیج بہتر کرنے کی فکر میں تھے۔ اس کانفرنس میں پاکستان کا تو کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ البتہ ایک بات ہے کہ پاکستان میں بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ شہزادہ محمد بن سلمان دہلی جانے سے پہلے اسلام آباد کچھ دیر کے لیے رکیں گے لیکن یہ امید امید ہی رہی اور حقیقت میں نہ بدل سکی۔ اب مختلف لوگ مختلف قسم کی قیا س آرائیاں کر رہے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلیمان کن وجوہات کی بنا پر پاکستان نہیں آئے۔ ایک طرف بھارت اپنے امیج کو بہتر بنا رہا ہے اور نئے اتحادوں میں نمایاں رول ادا کرنے کی کوشش میں ہے دوسری طرف اس وقت ہم دنیا میں تنہا ہو چکے ہیں ایک طرف ہماری افغانستان سے چھیڑ چھاڑچل رہی ہے اور یہ چھیڑ چھاڑ کسی بھی وقت جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے ایران سے بھی ہمارے تعلقات کوئی بہت اچھے نہیں ہیں۔ بلوچستان کے حالات جس طرح سے ہیں اس میں ایران کے کردار کو ہی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فی الحال اندرونی طور پہ دو محاذوں پر کسی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ڈالر کا ریٹ 300 سے کم ہو گیا ہے اور دوسری طرف چینی بھی 200 سے 160 پہ آگئی ہے، مگر ڈیزل اورپٹرول کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور لوگ اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ شاید 15 تاریخ کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ نہ ہو جائے۔ اس وقت ملک میں نگران سیٹ اپ قائم ہے جو کہ الیکشن کروانے کے لیے آیا ہے مگر الیکشن کے علاوہ ان کی ہر ایک بات پہ توجہ ہے دوسری طرف ہمارے سپہ سالار تاجروں کے وفود سے بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب فوج کے سربراہ نے تاجروں سے بات کی ہے اور ان کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان جلد ہی ترقی کی شاہراہ ہوگا اور بیرونی سرمایہ کاری کی بڑی اچھی پیشگوئی کی ہے ،لیکن فی الحال بیرونی سرمایہ کاری کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ملک میں سیاسی صورتحال اس وقت بہت پیچیدہ ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آنے والے دنوں میں کون سی سیاسی جماعت کس کے ساتھ ہوگی اور کس کے خلاف ہوگی یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ سب سیاسی جماعتیں مل کر پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے تحریک چلا رہی ہیں یا سب سیاسی جماعتوں پر بھاری وقت آ جائے اور سب احتساب کی شکنجے میں ہوں۔ کیونکہ ہماری قوم احتساب جمہوریت قومی مفاد ملکی سلامتی جیسے پرکشش لفظوں اس میں الجھی ہوئی ہے اور دوسری طرف لوگ کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے ہیں، انڈیا نے اپنا راکٹ چاند پر اتار دیا ہے اور وہ دنیا میں پہلا ملک ہے جس نے چاند کے جنوبی حصے میں لینڈنگ کی ہے اور دوسری طرف دنیا کی 20 انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی کانفرنس کا انعقاد کر کے دنیا کو پیغام دیا ہے انڈیا ایک پرامن ملک ہے۔ یہاں پر مختلف مذہبی رجحانات رکھنے والے مل جل کر رہتے ہیں۔ حقیقت میں ہندوستان اس وقت ایک ہندو جنونی ریاست کی شکل میں موجود ہے جس میں بھارتی جنتا پارٹی نے دوسرے مذاہب کے لوگوں کا جینا اجیرن کر رکھا ہے۔ گائے کے تحفظ کے بہانے پر بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا جاتا ہے اور ان کی کاروبار کو لوٹ لیا جاتا ہے اس وقت ہندوستان میں رہنے والے نہ عیسائی محفوظ ہیں نہ مسلمان اور نہ نچلی ذات کے ہندو۔لیکن بھارت کے میڈیا کا یہ کمال ہے کہ وہ دنیا کو بھارت کا جو چہرہ دکھاتا ہے وہ بڑا دلکش ہے ،حالانکہ اس وقت ہندوستان میں بھوک کی انتہا ہے جتنی زیادہ بے گھر لوگ کلکتہ اور ممبئی میں رہتے ہیں دنیا کے کسی اور شہر میں نہیں ہیں۔ پرائم منسٹر مودی نے ہندوستان کے کارپوریٹ سیکٹر کو کافی مراعات دی ہیں اور عام عوام کا استحصال کیا ہے لیکن چونکہ میڈیا پر کارپوریٹ لوگوں کا قبضہ ہے اس لئے وہ سب اچھا کی تصویر دکھاتے ہیں۔