کئی سال پہلے میں سی ایس ایس اور پرونشل سروسز کے امتحانات دینے کے امیدواروں کی کوچنگ کیا کرتا تھا۔ مجھے اسی دوران پتہ چلا کہ لاہور میں کوئی پانچ سو طالب علم مختلف ڈیروں میں مقیم تھے جو بلوچستان سے آئے تھے۔ اکثر نسلی اعتبار سے پشتون تھے اور خود کو بلوچ حقوق کے ساتھ جوڑتے ۔ کئی ایسے طالب علم ملازمت کر رہے ہیں، کچھ بیرون ملک چلے گئے اور کچھ بلوچستان میں رہ کر حقوق کے تحفظ کی تحریک کا حصہ ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں اتنا اچھا استاد ہوں یا نہیں لیکن بلوچستان سے آئے طالب علم کہا کرتے تھے کہ میرا لیکچر رات کو تمام ڈیروں میں مقیم طالب علموں تک پوائنٹس کی شکل میں پہنچ جاتا تھا۔ ایسا ہی ایک طالب علم بلوچستان میں ابھرتا ہوا ستارہ ہے۔کل اس سے مدت بعد رابطہ کیا ۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔یہ 347190 مربع کلو میٹر پر محیط ہے‘ یعنی پاکستان کا 43.6فیصد رقبہ ۔اس کی آبادی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔رقبہ بڑا ہونے کے باوجود آبادی کے لحاظ سے یہ سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ بلوچستان کو جاننے کے لئے یوں بھی لکھا جا سکتا ہے کہ یہ فطرت کی کشادہ پیشانی ہے جس کا کئی سو کلو میٹر کا علاقہ سمندری پٹی پر مشتمل ہے۔بلوچستان کے لوگ‘ ان کی ثقافت‘ پھلوں کے باغات اور نغمنے حسین ہیں۔ بلوچستان کی معدنیاتی دولت‘ تزویراتی حیثیت اور تجارتی اہمیت اسے ترقی سے ہمکنار کر سکتی ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کو تعلیم‘ صحت اور روزگار کی سہولتیں میسر آ سکتی ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا۔ترقی‘ کاروبار اور سرمایہ کاری کے لئے امن درکار ہوتا ہے۔بلوچستان میں امن کا قیام یہاں کی مقامی آبادی اور پورے ملک کے مفاد میں ہے لیکن وقفے وقفے سے ایسے مسائل سامنے آتے رہتے ہیں جو بدامنی پھیلاتے ہیں۔ پسماندگی کا تصور دنیا میں تبدیل ہو رہا ہے لیکن پیارا بلوچستان اب بھی قدیم صدیوں کی صورت ہے۔ دوسرے علاقوں میں بہت جلد پسماندگی کا یہ تصور تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے کہ جس ریاست یا علاقے کے قدرتی وسائل محفوظ ہوں اور وہاں کی ثقافت الگ پہچان رکھنے میں کامیاب رہی، وہ ترقی یافتہ کہلائے لیکن ترقی کی کچھ ضروریات قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت پیدا کرنے سے پوری ہوتی ہیں۔بلوچستان کی ترقی کی کلید وہاں مکمل طور پر امن کا قیام ہے۔بلوچ عوام اور پاکستان کی ترقی کے دشمن اس امر سے واقف ہیں اس لئے وہ یہاں بدامنی پھیلانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کی پسماندگی کی بڑی وجہ ان پر ریاست سے زیادہ سرداری نظام کا جبر ہے۔ کچھ سرداروں نے اپنے لوگوں کی بہبود کے لئے اچھے کام کئے ہیں‘ پارلیمنٹ میں عوام کی محرومیوں کے لئے آواز اٹھائی ہے لیکن سبھی ایسے نہیں۔زیادہ تر سرداروں نے دو طرف سے کھیل کھیلا۔ریاست کو یقین دلایا کہ بلوچ عوام سرداری نظام سے خوش ہیں، ریاست سرداروں کو وسائل دے تاکہ وہ عام بلوچ کی بہبود کے لئے کام کر سکیں ۔سردار نے بلوچ عوام کو بتایا کہ ریاست ان کے حقوق غصب کرنا چاہتی ہے‘ ان کے وسائل ہڑپ کرنا چاہتی ہے۔ریاست اور بلوچ عوام کے درمیان خلیج سرداروں نے پیدا کی ہے۔خطے میں ایسی طاقتیں سرگرم ہیں جو بلوچستان کو براہ راست نشانہ بنانے کا اعلان کرتی رہتی ہیں۔چند برس پہلے نریندر مودی نے جو کہا تھا اس کا ثبوت بلوچستان میں بھارت کے ایجنٹوں کا نیٹ ورک پکڑے جانے سے مل چکا ہے۔بلوچستان میں بدامنی کی خواہاں کچھ اور بین الاقوامی طاقتیں بھی ہیں۔ان سب کے مفادات بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے سے جڑے ہوئے ہیں ۔یہ نہیں چاہتیں کہ بلوچستان کے لوگ ریاست کا مہربان چہرہ دیکھ سکیں،یہ لوگ ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جن سے ریاست کو امن قائم کرنے کی خاطر سرگرم ہونا پڑتا ہے ۔ریاست کے اس فیصلے کو عالمی پریس میں جابرانہ کارروائی بتایا جاتا ہے ۔اتنی ساری طاقتیں جب سرگرم ہوں گی تو وہ بلوچستان میں عسکری و مزاحمتی فکر کے ان نظریات کو پھیلانے کی کوشش بھی کر رہی ہیں جو امن دشمن گروہوں کو اپنی سرگرمیوں کا فکری جواز فراہم کرتی ہیں۔افغانستان سے حملے‘ پاک ایران سرحد پر گڑ بڑ‘ سمگلنگ‘ ہزارہ آبادی پر حملے،مسلکی جھگڑے‘ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں اور طاقتور افراد کے ذاتی لشکر بلوچستان میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ بلوچ امور سے واقف میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اختلافات اور بدامنی کا خاتمہ کر کے معاشی ترقی کی طرف بڑھنا ایک آئیڈیل بات ہو سکتی ہے لیکن زمینی حقائق یہ کہتے ہیں کہ اختلافات دور کرنے اور ترقی کے عمل کو ایک ساتھ آگے بڑھایا جائے۔صدیوں سے ستم کے مارے اور بنیادی حقوق سے محروم لوگوں کو جب معاشی آزادی سیاسی و سماجی اختیار کا احساس دلائے گی تو بے بنیاد پروپیگنڈہ خود بخود دم توڑ دے گا۔ بلوچستان میں کوسٹل ہائی وے‘ گوادر پورٹ اور سی پیک منصوبوں کی وجہ سے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ریکوڈک معاملہ سلجھ گیا ہے اس منصوبے سے بلوچ عوام کو معقول آمدن ہو گی۔ڈھائی تین کروڑ کی آبادی کو ان مواقع سے فائدہ پہنچانا مشکل نہیں ہو گا۔گمراہ کن نظریات کو نجات دہندہ سمجھنے والے جلد راہ راست پر آ سکتے ہیں۔ بلوچستان کے پاس سینکڑوں کلو میٹر کی چراگاہیں ہیں ،یہاں سے مال گوادر پہنچانے والے چینی تاجر واپسی پر لاکھوں ٹن گوشت لے جانے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ پاکستان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ پچاس ارب ڈالر کا گوشت فراہم کرے ۔ بلوچستان کے پاس امکانات کا لا متناہی سلسلہ ہے ۔گویا سب سامان موجود ہے ،ایک امن کی ضرورت ہے ۔میں نے اپنے شاگرد سے کہا ہے کہ وہ حقوق کے حصول کی سیاسی اور پر امن تحریک کی حوصلہ افزائی کرے لیکن بلوچ عوام تک یہ شعور ضرور پہنچائے کہ معاشی و سماجی ترقی سامنے کھڑی ہے ۔تمام محروموں کو ماضی بھلا کر ایک نیا آغاز کرنا چاہئے ۔اس ضمن میں جہاں ریاست کا کردار بنتا ہے اسے بھی ماں کاکردار نبھانا ہو گا۔