مکرمی!پہلی مرتبہ 1835 میں سکھ دربار کشمیر کے گورنر نے بلتستان پر فوج کشی کی مگر راجہ احمد شاہ مغپون نے بلتی قوم کی مدد سے سکھوں کو شکست دی۔دوسری مرتبہ 1840 میں ڈوگروں نے بلتستان پر شب خون مارا۔ مگر اس دفعہ اقتدار کی رسہ کشی اور باہم اختلافات کی وجہ سے تخت بلتستان پر ڈوگرے قابض ہوئے۔1842 میں بلتیوں نے علم بغاوت بلند کیا مگر ڈوگرو نے سختی سے کچل دیا۔گوہر امان والی یاسین نے 1840 میں پنیال اور گلگت پر قبضہ کیا۔ یہی سے گلگت ریجن پر بیرونی حملوں اور اندرونی بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ گوہر امان کی سرکوبی کے لیے سکھوں نے پھر نتھو شاہ کو بھیج دیا۔ اس بار نتھو شاہ اور گوہر امان کے مابین شروٹ کے مقام پر صلح کا معاہدہ طے پایا اور شروٹ سے غذر گوہر امان جبکہ شروٹ اور گلگت پر سکھوں کا قبضہ تسلیم کیا گیا۔اس معاہدے کے بعد شروٹ کے مقام کو گلگت اور غذر کا حد فاضل مانا جاتا ہے۔کرنل نتھو شاہ کے مرنے کے بعد راجہ گوہر امان نے 1851 میں گلگت پر پھر قبضہ کیا۔جواب میں ڈوگروں نے بھاری لشکر لے کر 1856 میں گلگت پر یلغار کی اور قابض ہوئے ۔(یاور عباس ہولہ)