چند دنوں سے سورج ملک میں آگ برسا رہا ہے۔ شدید گرمی کے ساتھ مہنگائی اور بجٹ کی بجلیاں گرنے سے عوام اور انکے ارمان جل کر خاکستر ہو گئے ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی غیر موجودگی میں بلا شرکت غیرے مالی سال-2024 2023 کا بجٹ پیش کردیا۔ ڈوبتی معیشت کو تنکے کا سہارا دینے کی بھرپور سعی کی گئی ہے۔ اگرچہ میری نظر میں اسکا کوئی فائدہ نہیں۔ اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے اور اگر اس بے قابو جن کو بوتل میں قید کرنے کی کوشش کی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ بجٹ کتنا ہے؟ مالی خسارہ کتنا ہے؟ کس کس صوبے کو کتنا بجٹ عنایت ہوا ؟ کس کے ساتھ انصاف ہوا اور کس کے ساتھ ناانصافی ؟ یہاں میرا موضوع یہ نہیں۔ بجٹ کی تمام تر تفصیلات سے اخبارات و رسائل اور میڈیا بھرے پڑے ہیں اور دلچسپی رکھنے والے دل جلے افراد ان خبروں سے دل کو مزید جلا سکتے ہیں۔ مگر اس بجٹ کی واحد خوشخبری ایک ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پینتیس فیصد اضافہ ہے۔ اب بھلے سرکاری ملازمین اسے میرا حسد سمجھیں یا ان سے جلن۔۔۔۔ لیکن حقیقتاً اس خبر نے پچیس کروڑ عوام میں سے سوتیلوں اور سگوں کو الگ الگ قطار میں کھڑا کر دیا ہے۔ اب بجٹ بنانے والوں سے اللہ پوچھے کہ بھئی جو سرکار کا ملازم و شاہی نوکر نہیں اس کاکیا قصور ؟ اسکا کیا دوش؟ اس کی کیا غلطی؟ وہ مزدور، دیہاڑی دار، محنت کش طبقہ جسکی تنخواہ اور ماہانہ آمدن پہلے ہی انکی دال روٹی پوری کرنے میں ناکافی ہے، وہ بیچارے کہاں جائیں؟ کیا ان کو پاکستانی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں یا بس انکے حصہ میں محض جھوٹی تسلیاں اور دلاسے ہیں؟ انکی آمدن میں اضافہ ہوا،نہ تنخواہوں میں۔۔اضافہ ہوا تو ٹیکسوں میں اور مہنگائی میں!! سرکاری ملازمین چاہے کسی بھی شعبے اور محکمے سے تعلق رکھتے ہوں وہ سرکاری مشینری کا مستقل حصہ ہوتے ہیں۔ حکومتیں تو آنی جانی ہیں۔ آج کوئی تو کل کوئی اور۔۔۔۔ لیکن درحقیقت یہ سرکاری ملازمین ہی ہیں جو اداروں کو چلانے اور آگے بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ مگر وطن عزیز میں معاملہ انتہائی گھمبیر ہے اور گنگا بھی الٹی بہتی ہے۔ اب بھلا سرکاری ملازمین کی فوج ظفر موج سے کون یہ پوچھے کہ ملک کو تباہ کرنے میں کس کا ہاتھ ہے؟ آج پاکستان اور اسکے سرکاری محکمے جس زبوں حالی ، خستہ حالی اور تنزلی کا شکار ہیں اس میں سرکاری ملازمین کا کتناہاتھ ہے ؟ ہر بجٹ میں ان کی تنخواہوں میں اضافہ تو ناگزیر ٹھہرا لیکن اسکے بدلے وہ کیا کر رہے ہیں؟ وہ کتنی محنت کر رہے ہیں؟ وہ کتنی جانفشانی سے، لگن اور ایمانداری سے وطن کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟ اس وطن کی خوشحالی میں ان کا کردار کیا ہے؟ عوام الناس کا وہ طبقہ جنکا سرکاری محکموں سے کوئی تعلق نہیں، انہیں سارا سال اپنے کاموں کے سلسلہ میں سرکاری دفاتر کے کتنے چکر لگانا پڑتے ہیں اور سرکاری محکموں میں چپڑاسی سے لے کر چوکیدار اور کلرک سے لے کر افسران بالا تک سبھی کی گردن کیوں اکڑی رہتی ہے ؟ رشوت، جھوٹ، فریب، بد سلوکی جیسے اکھڑ رویے سرکاری ملازمین کی پہچان بن گئے ہیں۔ عوام کسی کام سے ان سرکاری دفاتر میں جائیں تو خواری کی لمبی فہرست انکی منتظر ہوتی ہے۔ عوام کورسواکرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ سرکاری محکموں کا جائزہ لیں تو رشوت اور کرپشن استقبال کرے گی (الا ما شاء اللہ)۔ تعلیم، صحت، انصاف اور دیگر ریاستی ادارے یکساں بدحالی کا شکار ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو۔۔۔۔ وہاں کون کسی سے حساب لے گا ؟ دفتروں میں لوگوں سے اس طرح سلوک کیا جاتا ہے کہ گویا انکے کام کر کے کوئی احسان کیا گیا ہے حالانکہ عوام کی خدمت ان کا فرض ہے۔عوام کے پیسوں سے کھڑے کئے گئے سرکاری ادارے عوام کا خون چوسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور جو "عوامی خدمت" سر انجام دی جاتی ہے اسی حساب سے تنخواہوں میں اضافے کی نوید بھی صرف انہی کو نصیب ہوسکتی ہے۔ اس وطن کی بدنصیبی پہ اور کتنا رویا جائے اور ماتم کیا جائے کہ جسکے کل بجٹ کا صرف ایک فیصد تعلیم اور ایک فیصد صحت کیلئے مختص کیا جائے ۔ اس ایک فیصد کی بندر بانٹ کے بعد بچتا ہی کیا ہے جس سے عوام کی حالت زار میں کسی قسم کی بہتری کی توقع رکھی جائے۔ حکومتی شاہ خرچیاں قابو میں کرنے سے خاطر خواہ بچت کی جا سکتی ہے لیکن عوام کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ کون بھرے؟؟ سود کی لعنت سے جان چھوٹتے نہیں چھوٹتی۔۔ اور ٹیکسوں کی مد میں اربوں کا بوجھ پھر عوام کے کندھوں پر ہی آن پڑتا ہے۔ قرض چکانے کے لیے مزید ٹیکس اور ٹیکس بڑھے تو مزید مہنگائی، لامحالہ حکومت کو ان اشیاء پر محصولات بڑھانی پڑتی ہیں جن سے گزیر ناممکن ہے۔ روز مرہ زندگی سے وابستہ اشیاء خوردونوش جن کے بغیر گزارا ممکن نہیں ا،نہی اشیاء پر مزید ٹیکس عائد کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسہ اکھٹا کیا جاسکے۔ فی الوقت ہو سکتا ہے بجٹ کی چند "خوشنمائیاں" عوام کو خوش کردیں لیکن یہ بھی آنے والے انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کے منہ میں دیا گیا لالی پاپ ہے جو چند ماہ بعد اپنا ذائقہ کھو دے گا اور خمیازہ پھر غریبوں کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ بجلی ، گیس ، کرائے ، پیٹرول کے بھاری بل دینے کے بعد جب روٹی ، پانی، سبزی ، پھل پر آتی ہے تو جیب خالی ہوچکی ہوتی ہے ایسے میں مزید مہنگائی اور مزید ٹیکس مرے کو مزید مارنے کے مترادف ہے۔ اب تو حقیقتاً عام آدمی کی زندگی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اسے ملک میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں سے کسی قسم کا سروکار نہیں۔پریشانی ہے تو بس اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی ، دو وقت کی روٹی پوری کرنے کی ، اور سر چھپانے کی۔ یا پھر باعزت طریقے سے مر جانے کی !!