استغاثہ کی طرف سے کل 299گواہوں کی فہرست پیش کی گئی تھی، جن میں 224کورٹ کے سامنے پیش ہوئے۔ ان میں سے 51 اہم گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ 13 چشم دیدپاکستانی گواہ عدالت کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے۔ اسپیشل جج جگدیپ سنگھ نے اسکی تفصیلات اپنے آرڈر میں درج کی ہیں۔ ان کے مطابق تین بار سمن جار ی کرنے کے باوجود پاکستانی گواہان کو عدالت میں لانے کی کوئی سعی نہیں کی گئی۔مارچ2017میں پہلی بار نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کو پاکستانی گواہ حاضر کرنے کیلئے کہا گیا۔ کئی ما ہ بعد وزارت خارجہ کا ایک مکتوب موصول ہوا کہ بیان درج کروانے کی تاریخ سے کم از کم چار ماہ قبل سمن ان کے پاس پہنچنا چاہئے۔ جولائی 2017میں پھر نومبر میں شنوائی کیلئے سمن جاری کئے گئے۔ یہ سمن وزارت داخلہ نے کئی ماہ بعد وزارت خارجہ کے سپرد کئے۔ جواب کا انتظار کرتے ہوئے، اپریل 2018میں عدالت نے تیسری بار گواہوں کو حاضر کروانے کیلئے حکم نامہ جاری کیا اور جولائی2018 کو وزارت داخلہ کو اس کی یاد دہانی بھی کروائی۔ جس کے جواب میں بتایا گیا کہ سمن وزارت خارجہ کے ذریعے پاکستانی فارن آفس کے سپرد کئے گئے ہیں۔ بھارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام نے یہ سمن گواہوں تک پہنچانے کے بجائے واپس کردیے۔ اس فیصلہ سے کئی برس قبل ہی ہریانہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس ( لاء اینڈ آرڈر) وکاس نارائن رائے نے راقم کو بتایا تھا کہ اس کیس کو حتی الامکان کمزورکرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ نارائن رائے، اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کے سربراہ تھے، جس نے سمجھوتہ دھماکوںکی ابتدائی تفتیش کی تھی۔ ''ہندو دہشت گردی‘‘ کے حوالے سے بھارت میں سرکاری ایجنسیوں پر دبائوبنایا جارہا تھا کہ وہ اپنی تفتیش ختم کریں نیزعدالتی پیروی میں تساہل اور نرمی سے کام لیں۔ ابتدائی تفتیش میں بھارتی ایجنسیوں نے ان دھماکوں کاتعلق بھی مسلم نوجوانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، چند ایک کو حراست میں بھی لیا۔ میڈیا میں انڈین مجاہدین اور پاکستان میں سرگرم کئی تنظیموں کا بھی نام لیا گیا۔ مگر چند دیانت دار افسران کی بدولت اس دھماکہ میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم' ابھینوبھارت‘ کے رول کو بے نقاب کیا گیا۔ سب سے زیادہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب نومبر 2008ء میں ملٹری انٹیلی جنس کے ایک حاضر سروس کرنل پرساد سری کانت پروہت کے رول کی نشاندہی کرکے اس کو گرفتار کیا گیا۔اگلے دو سالوں میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے سوامی سیما نند اور ایک انجینئر سندیپ ڈانگے کو حراست میں لے لیا۔ اسی دوران راجستھان کے انٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے 806 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں انکشاف کیاگیا کہ فروری 2006ء میں ہندو انتہا پسندوں نے وسطی بھارت کے ایک شہر اندور میں ایک میٹنگ کرکے سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ اس میٹنگ میں ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوک سیوم سنگھ(آر ایس ایس) کے مقتدر لیڈر اندریش کمار بھی موجود تھے۔ اس سے قبل ان کا نام اجمیر شریف کی درگاہ میں ہوئے دھماکہ کی سازش میں بھی آیا تھا۔مگر ان کی کبھی دوران حراست تفتیش نہیں ہوئی۔ 12 فروری 2012ء میں این آئی اے نے آر ایس ایس کے کارکنوں راجندر پہلوان، کمل چوہان اور اجیت چوہان کر گرفتار کیا۔ ایجنسی کے بقول ان تین افراد نے ہی ٹرین میں بم نصب کئے تھے۔ اسی طرح 29 ستمبر 2008ء کو مہاراشٹرکے مالیگائوں شہر کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ہوئے دھماکوں اور اس میں ملی لیڈز نے مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو چونکا دیاتھا۔ غیر جانبدارانہ تفتیش کے بعد اس نے ہندو دہشت گردی کا بھانڈا پھوڑدیا۔بدقسمتی سے کرکرے 2008 کے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے، جس کے بعد یہ تفتیش مرکزی ایجنسی این آئی اے کے سپر د کی گئی۔ اس کے بعد تو حیدرآباد کی مکہ مسجد، اجمیر درگاہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تار بھی ہندو دہشت گردی سے جڑتے گئے۔ اس سلسلے میں مالیگائوں کے بم دھماکہ مقدمہ کی خصوصی سرکاری وکیل (Special Public Prosecutor ) رو ہنی سالیان نے یہ سنسنی خیز انکشاف بھی کیا تھا کہ سرکاری وکیلوں پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ مقدمات کی پیروی میں سست روی اور نرمی سے کام لیں۔سالیان کے مطابق نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ایک سینئر افسر نے (جو محض ایک پیغام رساں تھا) اپنے بالا افسروں کو یہ پیغام پہنچایا کہ وہ مقدمہ کی پیروی کے لئے پیش نہ ہوں۔ سالیان نے کہا کہ '' اس کا مقصد (افسر کا لایا ہوا پیغام) بالکل واضح ہے کہ ہم سے ہمدردانہ احکامات کی توقع نہ رکھیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ بی جے پی جب سے بر سر اقتدار آئی ہے تو این اے آئی کا ایک افسر ان کے پاس آیا اور بات کی۔ سالیان کے بقول : '' اس نے کہا کہ وہ فون پر بات کرنا نہیں چاہتا، اس لئے وہ یہاں آیا اور پیغام سنایا کہ میں نرم رویہ اختیار کروں۔‘‘ مالیگائوں کیس میں سادھوی پرگیہ ٹھاکر، کرنل پروہت، سوامی اسیما نند( جس کے گجرات ضلع آنند میں واقع آشرم کو بی جے پی کے کئی بڑے رہنمائوں بشمول اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی سرپرستی حاصل تھی) اور دیگر کے مقدمات کے بارے میں محترمہ سالیان کو یہ ہدایت کہ وہ ''نرمی اور تساہل‘‘ سے کام لیں۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ دہشت گردانہ واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیق ہو اور ان میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ تفتیشی ادارے اور حکومتیں، اپنے آپ سے سوال کریںکہ آیا بے گناہ افراد کو پھنسا کر یا ایسے افراد کو جن کا کردار ان واقعات میں بالکل نہیں ہوتا ہے، کو سزائیں دیکر کیسے دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے؟ (ختم شد)