میں نے انہیں ان کے لباس سے پہچانا ، چھ گز کی گھیر دار شلواربلوچ ہی پہنتے ہیں اور منفرد لگتے ہیں ان نوجوانوں کی آنکھوںسے چھلکتی حیرت بتارہی تھی کہ وہ پہلی بار اسلام آباد آئے ہیں اسلام آباد کا سرسبز حسن نوواردوں کو ایسے ہی مسحور کر ڈالتا ہے ،وہ نوجوان بھی اپنے سیل فونز کی میموری میں ایف نائن پارک میں تصویریں ،سیلفیاں محفوظ کررہے تھے شائد انہیں وہاں کافی دیر ہوچکی تھی اور وہ کچھ تھک بھی گئے تھے، ان میں سے دو لڑکے میرے ساتھ والے بنچ پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے ان کی گفتگو میں اسلام آباد کے حسن کی ستائش بھی تھی اور احساس محرومی بھی ،وہ بلوچی میں باتیں کررہے تھے کہ ایک طرف ہمارا بلوچستان ، دوسرااسلام آباہے جس کے حسن کی آبیاری کی جارہی ہے ان کا لہجہ تلخ سے تلخ ہوتا چلا گیااور پھر کچھ اس طرح کی باتیں کرنے لگے کہ مجھ سے رہا نہیں گیا میں اٹھا اور ان کے پاس آگیا وہ ایک اجنبی کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر گڑبڑا سے گئے۔ ان کی نظریں میرے چہرے پر جم گئیں ، میں نے بلوچی میں ان سے حال پوچھا تو ان کے چہرے کھل گئے او ر بلوچی میں پوچھنے لگے ’’واجا! آپ کہاں سے ہو؟‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ میں کراچی سے ہوں پانچ برس پہلے ہی اسلام آباد منتقل ہوا ہوں۔ میں نے ان کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت چاہی انہوں نے جگہ دی اور میری طرف دیکھنے لگے وہ کچھ پریشان بھی لگ رہے تھے کہ میں نے تو ان کی ساری گفتگو سن لی ہے۔ وہ مجھے کسی حساس ادارے کا اہلکار سمجھ رہے تھے ۔میں نے مسکراتے ہوئے اپنا تعارف کرایا کہ میں ایک صحافی ہوں او ر کوئٹہ کے کچھ صحافی دوستوں کے نام بھی لے لئے ، انہیں ایک اجنبی کے ساتھ باتیں کرتا دیکھ کر ان کے تینوں دوست بھی آگئے انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیااور بلوچی میں اپنے دوستوں سے پوچھا کہ کیا بات ہے سب خیریت تو ہے نا؟ ان کے سوال کا جواب میں نے دیا اور کہایونہی حال احوال کرنا چاہ رہا ہوں ، میری بات پر ان میں سے ایک نوجوان نے کہاکہ بلوچستان میں رہا کیا ہے جو حال احوال ہو،وہاں دھماکے فائرنگ اور بلوچ ماں بہن بیٹیوں کے اشک ہیں۔ ہمارے پاس صرف احساس محرومی ہے ،میں نے ان کی تائید کی اور بتایا کہ جب آواران میں زلزلہ آیا تھا تو میرا وہاں جانا ہواتھا اورجو کچھ دیکھا اس کی یاد مجھے اب بھی دکھی کردیتی ہے ان میں سے ایک کہنے لگا آپ نے چند دن گزار ے ہوں گے ہمیں دیکھیں کہ کس عذاب میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان نوجوانوں کو ہم سب سے شکائتیں تھیں او ر ان کے نزدیک ان سب مسائل کا اک ہی حل تھا ۔بات سے بات چلی او ر لاپتہ افراد پر آکر ٹھہر گئی ایک کہنے لگا ’’جبر یہ کہ ہمیں مارا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آنکھ سے اشک اور منہ سے آواز بھی نہ نکلے ،دنیا میں ایسا کہیں ہے ؟ ہر دوسرے گھرسے کوئی نہ کوئی لاپتہ ہے ،دنیا میں شائد ہی کہیں ایسا ہو، اگر ہے تو بتائیں میں نے نرمی سے جواب دیا ۔اگر کوئی یہ کہے کہ کوا کان لے گیا ہے تو کوے کے پیچھے دوڑنے سے پہلے کان پر بھی ہاتھ لگا لینا چاہئے ، مسنگ پرسنز یا لاپتہ افراد مسئلہ ہے اس سے انکار نہیں لیکن یہ بھی درست نہیں جو آپ کہہ رہے ہو۔ ورلڈپاپولیشن ریویوکا ڈیٹا اٹھائیں لاپتہ افراد میں سر فہرست امریکہ ملے گا۔یہ میں نہیں نیشنل کرائم انفارمیشن سنٹر کا ڈیٹا بتارہاہے کہ 2021میں پانچ لاکھ اکیس ہزار کے لگ بھگ افراد لاپتہ ہوئے تھے، پھردوسرا نمبربھارت کا ہے جہاں ایک دن میںاوسطا 2130افراد لاپتہ ہوئے یہ ڈیٹا بھی بھارتی سرکار کی نیشنل کرائم ریٹ بیورو کی ویب سائیٹ پر موجود ہے اس کے بعد انگلینڈ،پھرشام،کولمبیا،میکسیکو اور نائجیریا ہیں ،میںیہ نہیں کہتا کہ یہاں ایسا نہیں ہے بالکل ہے لیکن پروپیگنڈہ زیادہ ہے ۔ میری باتوں پر وہ ونوجوان جز بز ہوکر کہنے لگے کہ آپ تو اسٹیبلشمنٹ کی زبان بول رہے ہیں جس پر میں نے مسکراتے ہوئے کہامیں نے تو بلوچستان کے مسائل،پریشانیوں او ر پسماندگی سے اتفاق کیا ہے اور ابھی اسی نشست میں کیا ہے لیکن حقائق بھی آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں ان مسنگ پرسنز میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں جو اپنی مرضی سے بندوق اٹھا کر کسی علیحدگی پسند جماعت میں چلے گئے جو پہاڑوں پر جا کر مورچے سنبھال لیتے ہیں انہیں بھی لاپتہ افراد میںشامل کر لیا جاتا ہے ،کیاگوادر کے ہوٹل پر حملہ بھی ان نوجوانوں نے نہیںکیا تھا جن کا نام مسنگ پرسنز کی فہرست میں شامل تھا،مانتا ہوں بلوچستان بہت پسماندہ ہے لیکن ا یسا تو کے پی کے میں بھی ہے ،جنوبی پنجاب میں بھی او ر سندھ میں بھی ، لاڑکانہ جو بھٹو شہید کا شہر ہے وہاں کی حالت دیکھی نہیں جاتی ۔۔۔ ایک بات اور مجھے بتائیں کہ ان بلوچ سرداروں کے خلاف تحریک کیوں نہیں چلتی جو اپنے قبیلوں سے خراج وصول کرکے کراچی کے ڈیفنس میں ڈبل کیبن گاڑیوں کے حفاظتی حصار میںگھومتے پھرتے اور بنگلوں میں رہتے ہیں پارلیمان میں بھی پہنچ جاتے ہیں ؟ان سے سوال کیوں نہیں ہوتا کہ ہمارے لئے تو خشک روٹی بھی نہیں اور آپ کے لئے ب بڑی بڑی بیکریوں کے کیک او ر شیر مال کیوں؟ان نوجوانوں سے کافی دیر بات ہوئی وہ قائل تو نہ ہوئے لیکن ان کے لہجے میں پہلے سی کاٹ بھی نہ رہی تھی۔ میراخیال ہے کہ ان کے سامنے گوادر والوں نے جمہوری طریقے سے اپنا وجود نہیں منوایا؟ ان میں سے کسی نے کلاشن کوف یا راکٹ لانچر نہیں اٹھایا ہاں !اپنے مطالبات کے لئے پلے کارڈ اور آوازضرور اٹھائی اور ایک کے ہاتھ میں دوسرے کا ہاتھ دیا یہی ساتھ ان کی طاقت بنا اگرچہ کہ مسائل حل نہیں ہوئے لیکن حل ہونے کی امید تو ہے ناںکہ : لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے ۔۔۔