اللہ تعالیٰ لاریب کتاب میں فرماتا ہے:اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو ۔ باہمی اتحاد و اتفاق کا قیام اور تفرقہ و انتشار سے بچائو کی پہلی سیڑھی ہے ۔فرقہ واریت اقوام کو کمزور کرتی ہے ۔خطیب بادشاہی مسجد مولانا سید عبد الخبیر آزاد ؔنے25نومبر 2023کو شاہی قلعہ کے عالمگیری دروازے اور بادشاہی مسجد کے مرکزی دروازے کے درمیان حضور ی باغ میں’’ بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس ‘‘کروائی ،جس کے روح رواں دفاقی وزیر برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی جناب محترم انیق احمد تھے ۔جبکہ اس کانفرنس سے صوبائی وزیر اوقاف مذہبی امور سید اظفر علی ناصر ،چیف ایڈمنسٹریٹر و سیکرٹری اوقاف ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری اورپاکستان علما کونسل کے چیئرمین اورنمائندہ خصوصی وزیر اعظم پاکستان علامہ طاہر اشرفی نے خطاب کیا۔اس کانفرنس کاحُسن یہ تھا کہ تما م مذاہب کی صف اول کی سرکردہ شخصیات کانفرنس کی صف اول میں ہی موجود تھیں ۔بین المسالک ہم آہنگی مناظروں ،مباہلوں اور فتوئوں سے نہیں مکالمے سے پیدا ہوتی ہے ۔حکومتِ پاکستان کی کاوشوں سے مئی 2017کو تمام مکاتب فکر کے تعاون سے ’’پیغام پاکستان‘‘ ترتیب دیا گیا ،فرقہ واریت کے خاتمے اور بین المسالک ہم آہنگی کے لیے یہ ایک تاریخی دستاویز ہے ۔اس دستاویز پرملک بھر کی قدآور 1821 مذہبی شخصیات نے دستخط کر رکھے ہیں ۔ عالمگیر دروازے کی طرف سے، میں جب مسجد کی سیٹرھیاں چڑھ رہا تھا تو میرے پیچھے شاہی قلعہ تھا ۔آخری سیڑھی پر کھڑے ہو کر میں نے ایک نظر شاہی قلعہ پر ڈالی تو تاریخ مجھے 17ویں صدی میں لے گئی ۔جب اس سرزمین پر مغلیہ خاندان کا طوطی بولتا تھا ۔ اورنگزیب کے بھائی مظفر حسین نے بادشاہی مسجد اپنی نگرانی میں تعمیر کروائی ۔ اس کا احاطہ 279861 اسکوئیر فْٹ ہے جبکہ مسجد میں نماز پڑھنے کی جگہ 22604 اسکوئیر فْٹ سے زیادہ ہے ، اگر احاطے کو بھی شامل کر لیا جائے تو مسجد میں بیک وقت ایک لاکھ لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔اس کی دیواریں چھوٹی اینٹوں سے بنائی گئی ہیں۔ اس کا مرکزی ہال رنگوں اور نقوش و نگار سے مزین سنگِ مرمر پر مشتمل ہے۔ اس کی دیوار 19.68 فٹ لمبی تعمیر کی گئی تھی بادشاہی مسجد پاکستان کا ثقافتی، سفارتی اور سیاحتی اثاثہ ہے۔ مغلیہ اولادوں نے اپنی سیاسی ،مذہبی اورثقافتی وراثت کو کیسے تباہ کیا ؟وہ آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی بے بسی سے پتہ چلتا ہے ۔انگریز نے بہادرشاہ ظفر کا گرفتار کر کے رنگون کے جزیرے میں بھیج دیا۔ ہندوستان کے آخری شہنشاہ کے ہمراہ شاہی خاندان کے 35 مرد اور خواتین تھیں۔کبھی شاہی قلعے پر اور بادشاہی مسجد میں اس خاندان کی اجازت کے بغیرپرندہ بھی پر نہیں مار تا تھا۔مگر آج وہ شہنشاہ کس قدر بے بس ہے ۔ شاہی قلعے میں خادمائوں کے جھرمٹ میں رہنے والا تاجدار ہند،ظل سبحانی اور تیموری لہو کا آخری چشم و چراغ کیپٹن نیلسن ڈیوس کے گھر کے گیراج میں آخری سانسیں لیتا ہے ۔بہادر شاہ ظفر اس گیراج میں چار سال رہااور اپنی مشہور زمانہ غزل یہی پر لکھی: لگتا نہیں دل مرا اجڑے دیار میں کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں کتنا بدنصیب ہے ظفردفن کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں سیڑھیوں پر کھڑے کھڑے تاریخ کے سارے مناظر میرے ذہن میں دوڑنے لگے ،جب دہلی کے لال قلعے میں بہادر شاہ ظفر کو تاج پہنایاگیا ہو گا،شاہی فورس نے سلامی پیش کی ہو گی ،بادشاہ نے فاخرہ لباس پہنا ہو گا،سر پر تاج شاہی رکھ نادر شاہی اور جہانگیری تلواریں لٹکا کر دربار عام میں آیا ہو گا ۔وہ کیسا سماں ہو گا ؟تاریخ کے وہ مناظر بھی گھومنے لگے ،جب بہادر شاہ کے سامنے اس کے چار بچوں کے سر کاٹ کر انگریز تھال میں سجا کر اس کے سامنے تحفے کی شکل میں لائے گئے۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کو اپنے ہاتھوں میں لے کردرد بھرے الفاظ میں ان کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا :تیمور کی اولاد ایسے ہی سرخرو ہو کر باپ کے سامنے اپنا فرض ادا کرتی ہے۔ اس کے بعد شہزادوں کے دھڑ کوتوالی کے سامنے اور کٹے ہوئے سروں کو خونی دروازے پر لٹکا دیا گیا۔ میں بادشاہی مسجد کے صحن میں کھڑا ہو کر یہ سوچتا رہا کہ مغلیہ خاندان پر زوال کیوں آیا ؟ تو تاریخ نے بتایا ۔اس دور میںعوام کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی، مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی،خوراک منڈیوں سے کٹائی کے موسموں میں غائب ہو جاتی، سوداگر منہ مانگی قیمت پر لوگوں کو گندم،گڑ اور ترکاری بیچتے، ٹیکسوں میں آئے دن اضافہ ہوتا ،شہزادوں نے دلی شہر میں کبوتروںکے دانے تک پر ٹیکس لگا دیا تھا، طوائفوں کی کمائی کا ایک حصہ شہزادوں کی جیب میں چلا جاتا تھا،شاہی خاندان کے لوگ قتل بھی کر دیتے تھے تو کوئی ان سے پوچھ نہیں سکتا تھا۔ ذرا سوچیں! ہم کہاں کھڑے ہیں ؟آج ہمارے حالات کیا ہیں ؟ علامہ سید عبد الخبیر آزادؔ کی زیر صدارت منعقدہ’’ بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس‘‘کا خلاصہ یہی تھا کہ علما کرام نے باہمی اتحاد، بصیرت، فہم و فراست اورحکمت و دانائی سے ملک کوایک بڑے بحران سے بچا لیا ہے ۔ہمیں حسن ظن رکھنا چاہیے ،اسلام اپنے پیروکاوں کو آپس میں حسن ظن کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کا حکم دیتا اور بدگمانی سے منع کرتا ہے۔ اس لیے حتی الامکان ہمیں دوسروں کے بارے میں خوش گمانی رکھنی چاہیے ۔ صحت مند مکالمے کے لیے بھی جانبین کی طرف سے ایک دوسرے سے حسن ظن لازمی ہے، اس کے بغیر بات چیت بامقصد نہیں ہو سکتی۔ فریقین کو اختلافی کی بجائے اتفاقی امور پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ ہم صرف ظاہر کے پابند ہیں،ہمیں یہ حکم نہیں کہ کسی کا سینہ چیر کر دیکھیں کہ وہ مسلمان ہے کہ نہیں۔جبکہ انتہاء پسندی سے دوری اور ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ دونوں جانب سے اصحاب بصیرت جو تنگ دل نہ ہوں اور معاملات کو سکون و دانش کے ساتھ اور اعتدال سے دیکھتے ہوں آگے بڑھیں۔ کسی صورت میں انتشار اور اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔ آج امت مسلمہ جس طرح کے مصائب و مشکلات میں مبتلا ہے ، اس کا تقاضا ہے کہ سب مسلمان یکجا ہو کر اس کا مقابلہ کریں۔ جس طرح کے عالمی حالات پیدا ہو گئے ہیں ،اس کے بعد اتحاد کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔ اس لیے اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر بین المسالک مکالمے کی بنیاد رکھی جائے تو نتیجہ خیز ہونے کے امکانات زیادہ بڑھ جائیں گے۔ڈاکٹر سیدطاہر رضا بخاری ہر محرم الحرام میں بین المسالک ہم آہنگی کی مثال پیش کرتے ہیں ،جو قابل تحسین اور قابل تقلیدہے ۔مولانا آزاد ؔنے بھی ویسا ہی گلدستہ تیار کر رکھا ہے ۔وہ اسے کبھی کبھی سجاتے ہیں ۔یہ کام کبھی کبھی کا نہیں ،روز روز کا ہے ۔لہذا اسے مستقل بنیادوں پر کیا جائے ۔ حکومتی سطح پر بین المسالک ہم آہنگی کے لیے ایک سیکرٹریٹ کی ضرورت ہے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب سیدمحسن رضا نقوی اس کام کو سر انجام دیں تو تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے ۔ مسالک کے مابین اختلافات ہمیشہ رہے ہیں مگر ہمیں مشترکات پر سب کو اکٹھا کرنا ہو گا تاکہ ایسی کانفرنسوں کا مقصد پورا ہو سکے۔