19جنوری 2022ء بدھ کے روز لندن میںسٹوک وائیٹ انٹرنیشنل ایک نجی لا ء فرم نے میٹروپولیٹن پولیس کو درخواست دی ۔کہ بھارتی آرمی چیف جنرل نروانے اور وزیر داخلہ امِت شاہ کی نگرانی میں بھارتی قابض فوج مقبوضہ جموںوکشمیرمیں انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور عام شہریوں پر تشدد اور انھیں ماورائے عدالت قتل کر رہی ہے۔اپنی درخواست میں سٹوک وائیٹ انٹرنیشنل نے درخواست کی ہے کہ برطانوی قانون جینیوا کنوینشنز ایکٹ 1957ء کے تحت بھارت کے آرمی چیف مکند نروانے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو مقبوضہ کشمیر میں’’جنگی جرائم‘‘کی پاداش میں گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلائے۔اس حوالے سے لا فرم،نے لندن کے میٹروپولیٹن پولیس کے جنگی جرائم یونٹ کو ایسے جامع شواہد پر مشتمل ایک رپورٹ جمع کراوئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر میں سماجی کارکنوں، صحافیوں اور عام شہریوں پر تشدد، ان کے اغوا اور قتل کے پیچھے بھارتی فورسز کی سربراہی کرنے والے جنرل منوج مکند نروانے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا ہاتھ ہے۔ اس قانونی فرم نے2020ء اور2021ء کے درمیان مقبوضہ جموںوکشمیرمیں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے2000 سے زائد شہادتیں پیش کی ہیں۔ اس رپورٹ میں آٹھ نامعلوم سینیئر بھارتی فوجی اہلکاروں پر بھی کشمیر میں جنگی جرائم اور تشدد میں براہ راست ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ لا فرم نے اپنی شکایت میں بھارت کے زیر انتظام متنازع خطے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اس بات پر یقین کرنے کی پختہ وجہ موجود ہے کہ بھارتی حکام جموں و کشمیر میں شہریوں کے خلاف جنگی جرائم مرتکب رہے ہیں۔ تنظیم مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے جنگی جرائم پرپر توجہ مرکوز کرنے کی اپیل کررہی ہے، ان شواہد میں مقبوضہ کشمیرماورائے عدالت قتل، تشدد، پیلٹ گن سے آنکھوں کوبے نورکرنا، تشدد، جبری گمشدگی اور جبری حراست کے واقعات شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں ایک وسیع ترکالے قوانین لاگو ہیں اوران کو جنگی آلے کے طور پر استعمال کیاجارہا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میںبھارت کا انسداد دہشت گردی کی آڑ میں نسل کشی کا عملی مظاہرہ، انسداد دہشت گردی کے بہانے اسرائیل کے انٹیلی جنس افسران کی مقبوضہ جموں و کشمیرموجودگی اوران کے ذریعے کشمیریوں پر تشدد شامل ہیں۔رپورٹ کے آخری حصے میںاختلافات اور ساختی تشدد این جی اوز، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کرنا اورصحافت بند کرنا' جیسے موضوعات کا ذکر ہے۔ایس ڈبلیو آئی-یونٹ نے انسانی حقوق کے وکلاء اور کارکنان کے گھروں؍دفتروں کے چھاپوں، لوگوں کے عام کام وکاج میں رکاوٹیں، فیلڈ ورک کے دوران گرفتاری یا سفری دستاویزات کی بدنیتی سے ضبط کرنے کے مبینہ واقعات کو ایک دستاویزی شکل دی ہے۔ لا فرم نے بھارتی فوجی اورسول حکام کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے لندن پولیس کو یہ درخواست اس کے عالمی دائرہ اختیارکے تحت دی ہے، جو دنیا میں کہیں بھی انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کا اختیار دیتا ہے۔1947ء سے آج تک یہ پہلی بار ہے کہ کشمیر میں مبینہ جنگی جرائم پر بھارتی حکام کے خلاف بیرون ملک قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اسٹوک وائٹ میں بین الاقوامی قانون کے ڈائریکٹر ہاکان کاموزکاکہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ رپورٹ برطانوی پولیس کو تحقیقات شروع کرنے اور بالآخر ان اعلیٰ بھارتی حکام کو برطانیہ میں داخل ہونے پر گرفتار کرنے پر قائل کرے گی۔ لافرم کے مطابق کچھ بھارتی اہلکاروں کے برطانیہ میں مالیاتی اثاثے اور دیگر روابط بھی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اورکشمیر میں دیگر قانونی اقدامات کی جانب بھی توجہ مرکوز کی جائے ۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ یہ آخری اقدام نہیں ہو گا شاید اور بھی بہت سی درخواستیں دائر کی جائیں گی۔ مقبوضہ جموںو کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ایک لاکھ سے زائدلوگ شہید ہوئے ہیں۔کشمیرکی مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں طویل عرصے سے بھارتی تسلط کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی منظم نسل کشی اور گرفتاریوںکے خلاف صدا بلند کرتی چلی آ رہی ہیں۔ان رپورٹس میں الزام لگایا گیا تھا کہ قابض بھارتی فوج کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق دائمی استثنیٰ حاصل ہے۔جنیوا کنونشنز ایکٹ 1957ء برطانیہ کی پارلیمنٹ کا ایک قانون ہے جس میں جنیوا کنونشنز کی دفعات کو برطانوی قانون میں شامل کیا گیا ہے۔ جنیوا کنونشنز ایکٹ کے تحت دنیا کے کسی بھی حصے میں کیے گئے جنگی جُرم، ریپ اور تشدد کے دیگر واقعات میں ملوث افراد کے خلاف برطانیہ میں مقدمہ چلانے کی گنجائش موجود ہے اور جنیوا کنونشنز ایکٹ 1957ء کے تحت جنگی جرائم عالمگیری دائرہ اختیار کے تابع ہیں، جو اس اصول کو ایک انتہائی طاقتور انصاف کا طریقہ کار بناتا ہے۔ رپورٹ کے مصنف لندن کے ایک وکیل خلیل دیوان ہیں اوروہ لندن کی بین الاقوامی قانونی فرم سٹوک وائٹ میں تحقیقات کے شعبے کے سربراہ ہیں۔فرم کا کہنا ہے کہ وکلا کے اس گروپ نے یورپی عدالتِ انصاف (ای سی جے) میں ایک ایسا مقدمہ سب سے پہلے پیش کرنے اور یورپی کمیونٹی ایسوسی ایشن کے معاہدے (ای سی اے اے) میں پالیسی تبدیلیوں کے لیے کامیابی کے ساتھ بحث کرنے کا اعزاز حاصل کیا، یہی معاہدہ ترک شہریوں کے لیے انقرہ معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بہرحال آج کی دنیا میں سفارت کاری کا دائرہ بہت پھیل چکا ہے اور لندن میں کشمیرکا کیس فائل کیاجانا کشمیر کاز کے حوالے سے ایک مثبت پیش رفت ہے کیونکہ اس طریقہ کارسے بھی دنیا کو کشمیرمیںبھارتی مظالم کے بارے میں باور کرایا جاسکتا ہے۔برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں جو عالمی سیاست کا اہم مرکز ہے، اس سفارتی کوشش سے کشمیرکاز کو بہت فائدہ ملے گا۔البتہ یہاں یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا عالمگیری دائرہ اختیار کو عالمی انصاف کے اصول کے طور پر استعمال کیا جائے گا یا برطانوی حکومت کے فوری معاشی مفادات کو پورا کرنے کے لیے’’سیلیکٹو جسٹس‘‘کے ایک عارضی حربے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔