ایک عزیز نے فیس بک پر گردش کرتی ڈاکٹر محمد سجاد کی ایک پوسٹ ارسال کی ہے۔ مجھے نہیں علم کہ یہ کسی اخبار میں چھپی یا عمدہ تحریر صرف سوشل میڈیا کی زینت بنی، اس خوبصورت تحریر کو آپ چاہیں تو جمہوریت مخالف جذبات کا نام دے لیں یا پاکستان میں رائج شرمناک جمہوریت کے مقابلے میں انسان کے بنیادی شہری حقوق از قسم جان و مال، عزت و آبرو اور روزمرہ ضروریات زندگی کا تحفظ فراہم کرنے والے ان معاشروں کی نشاندہی جہاں عام شہری پرامن اور پرسکون زندگی بسر کر سکتا ہے۔ اسے عرف عام میں بھونکنے کی آزادی تو نہیں مگر اطمینان بخش حال اور محفوظ مستقبل کی ضمانت حاصل ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹوں کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ عوامی ملکیت ہیں اور تحریر کنندہ جملہ حقوق سے قارئین کے حق میں دستبردار ہو گیا ہے۔ اس بنیاد پر ڈاکٹر محمد سجاد کے شکریے کے ساتھ ان کی تحریر کو کالم کا حصہ بنا رہا ہوں۔ ’’کافی سال پہلے پاکستان میں ایک دوست سے بات ہوئی تو کہنے لگا کہ جن عرب ممالک کی آپ تعریف کرتے ہیں کیا وہاں جمہوری نظام ہے؟ میں نے کہا، جمہوری نظام کا مطلب پاکستان سے باہر رہ کر ہمیں تو یہ سمجھ آیا ہے کہ جمہوری نظام وہ ہے جس میں عوام امن و سکوں سے زندگی گزار سکیں۔ کبھی یہاں آ کر رہو اور دیکھو۔ یہاں گھر بار، گاڑی کھلی چھوڑ جاؤ تو پرواہ نہیں ہوتی۔ امن ہے، کسی کمپنی یا تاجر کی کسی مارکیٹ یا پراڈکٹ پہ اجارہ داری نہیں۔ آپ کوئی پنگا نا کرو، کبھی پولیس آپ کو روکے گی بھی نہیں۔ میں ترکی، ملائشیا، سنگاپور میں بھی رہا ہوں لیکن یہاں خلیجی ممالک میں جو امن و امان اور قانون کا رعب و دبدبہ ہے وہ کہیں اور نہیں دیکھا۔ یہاں رہنے والوں کو پتا ہے کہ قانون کو دھوکہ دینا اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ جس کی وجہ سے ہر بندہ سکوں میں ہے۔ چند سال پہلے کی بات ہے میں نے دبئی ایک مال میں ایکسچینج سے پیسے وصول کئے اور ساڑھے تین ہزار درہم جو اب تقریبا اڑھائی لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں، جیب سے چابی نکالتے ہوئے کہیں گر گئے۔ گھر پہنچا تو پتا چلا۔ واپس مال جا کر وہاں سیکورٹی آفس کو بتایا۔ ایک فارم پر کیا اور مجھے کہا گیا کہ آپ بیٹھیں۔ تھوڑی دیر بعد سیکورٹی منیجر آیا اور مجھے ایک اور فارم دیا اور ساتھ ایک پلاسٹک شیٹ میں میرے پیسے تھے! میں حیران ہوا کہ انہیں پتا کیسے چلا؟ اور پہلا فارم تو میں نے صرف کمپلینٹ کیلئے پر کیا تھا۔ میرے پوچھنے پہ سیکورٹی منیجر نے بتایا کہ ایک عورت کو آپ کے پیسے ملے اور اس نے سیکورٹی گارڈ کو دیئے۔ ہم نے کیمرہ کے ذریعے آپ کو ٹریس کیا اور گاڑی کا نمبر نوٹ کر لیا تھا۔ یہ رات کا واقعہ تھا، کہنے لگا اگر آپ نا آتے تو ہم صبح آپ کو فون کرتے۔ ایکسچینج کے باہر لگے کیمروں میں ہم نے چیک کیا تھا کہ یہ پیسے آپ ہی کی جیب سے گرے ہیں! پچھلے سال اسی طرح یہاں ایک فوڈ سٹریٹ میں مجھ سے ایک لفافہ رہ گیا، جس میں 1000 درہم تھا۔ کھانے کی ٹرے اس کے اوپر رکھ دی تھی اور کھانے کے بعد فون پہ بات کرتا ہوا چلا گیا۔ شام کو فون آیا کہ آپ کا اینویلپ سیکورٹی آفس میں ہے۔ رات فلاں وقت تک اس نام کا بندہ موجود ہو گا، آپ جا کر وصول کر سکتے ہیں۔ گرمیوں میں عام بات ہے کہ مالز سے باہر کسی مارکیٹ وغیرہ میں جانا ہو تو گاڑی آن چھوڑ جاتے ہیں کہ اے سی چلتا رہے اور ٹھنڈی رہے۔ میری گاڑی میں ہر وقت لیپ ٹاپ موجود ہوتا ہے، کسی کی جرات نہیں کہ گاڑی کا دروازہ کھولے یا اندر جھانکے۔ پولیس، عدالتیں اور دیگر سرکاری محکموں میں کوئی کام ہو سیدھا جائیں اور متعلقہ آدمی سے ملیں۔ حاکم دبئی کا حکم ہے کہ کوئی سینئیر اہلکار اپنے دفتر کا دروازہ بند نہیں رکھ سکتا۔ جو دوست یہاں مقیم ہیں وہ کسی بھی ادارے میں سینئر افسران کے آفس دیکھ سکتے ہیں، دروازہ کھلا رکھتے ہیں۔ پالیسی یہ ہے کہ سائل کیلئے آپ نے دروازہ کھلا رکھنا ہے، سرکاری دفتر میں سرکار کے اوقات میں آپ کی عوام سے کوئی پرائیویسی نہیں۔ عدالت میں کوئی کیس ہے تو آپ کے نمبر اور ای میل پہ لنک آ جاتا ہے، خود جا کر حاضر ہونا ضروری نہیں، لنک کھولیں اور عدالت آپ کی وڈیو کال پہ حاضری لگا دے گی۔ عربی نہیں آتی تو مترجم موجود ہے۔ عدالت میں کوئی چیز داخل کرنی ہے، طرفین ایک لاگ ان اور پاس ورڈ کے ذریعے کیس یا درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ آپ وکلاء یا کسی عدالتی اہلکار کے محتاج نہیں کہ وہ آپ کو بتائیں کہ کیس کہاں پہنچا ہے۔ کاروبار کریں یا ملازمت، قانون کے مطابق چلیں کوئی آپ کو نہیں پوچھتا کہ کون ہو اور کدھر جا رہے ہو، گاڑی کے پیپر چیک کرواؤ، گاڑی کی لائٹس آف کرو تمہیں پتا نہیں آگے کینٹ ایریا ہے، فلاں علاقے سے ہو تو یہاں کیا کر رہے ہو وغیرہ وغیرہ۔ جب تک بندہ کوئی ایسی بڑی غلطی نا کرے جس سے دوسروں کی جان و مال کو خطرہ ہو، پولیس سے آمنا سامنا بھی نہیں ہوتا۔ روڈ پہ ایکسیڈنٹ ہو جائے، گاڑی خراب ہو جائے، جب تک ریکوری ٹرک نہیں آ جاتا، پولیس کی گاڑی موقع پہ موجود رہے گی۔ اگر فیملی ساتھ ہے تو سمجھیں آپ کو مزید پروٹوکول ملے گا۔ میرا سعودیہ ‘یو اے ای اور عمان و یو اے ای کے درمیان بائے روڈ بہت آنا جانا ہوتا۔ ایک بار رات کو یو اے ای عمان بارڈر پہ رات کو لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔ بارڈر پہ کنسٹرکشن کی وجہ سے امیگریشن کا عملہ ایک بڑے کیبن میں بیٹھا ہوا تھا اور لوگ گاڑیاں پارک کر کے امیگریشن کیبن میں جاتے اور پاسپورٹ پہ سٹیمپ لگواتے۔ بچے گاڑی میں سوئے ہوئے تھے۔ میں ان کے پاسپورٹ لے کر امیگریشن کیبن میں گیا تو وہاں بیٹھے آفیسر نے پوچھا کہ یہ باقی پاسپورٹ کس کے ہیں اور بچے کہاں ہیں؟ بتایا کہ میرے بچے اور فیملی گاڑی میں سوئے ہیں۔ کہتا ہے، انہیں دیکھے بغیر انٹری سٹیمپ نہیں لگا سکتا۔ میں نے کہا، میں انہیں لے کر آتا ہوں اور کیبن سے نکل گیا۔ جب میں میں گاڑی کے پاس پہنچا اور دروازہ کھولنے لگا تو مجھے وہی آفیسر کہتا ہے، جگانے کی ضرورت نہیں۔ اس نے گاڑی میں جھانکا اور مجھے ٹارچ پکڑائی کہ ادھر بانٹ پہ لگاؤ۔۔۔ اس نے وہیں ہم سب کے پاسپورٹ پہ سٹیمپ لگائی اور گاڑی کیلئے سٹیکر دیا کہ آپ نکلو ساتھ فیملی ہے۔ وہ بندہ کیبن سے اٹھ کر باہر مٹی اور حبس میں پیدل چل کر میرے پیچھے آ گیا کہ اس کے ساتھ فیملی ہے، انہیں تکلیف نا ہو۔ میں نے خلیجی ممالک میں بائے روڈ اکیلے اور بچوں کے ساتھ بھی رات گئے بے شمار بار سفر کیا ہے، کبھی یہ ڈر نہیں ہوا کہ ساتھ فیملی ہے رات کو سفر نا کروں۔ عمان کے دور دراز علاقوں میں تو ہم رات کو ایسی جگہ بھی کیمپنگ کرتے رہے ہیں جہاں رات بھر کوئی گاڑی تک قریب سے نہیں گزری۔ خلیج میں کسی ایئرپورٹ پہ آج تک کسی نے سامان نہیں کھلوایا کہ بیگ کے اندر کیا ہے۔ سکیننگ کے بعد سامان لیا اور سکون سے باہر۔ میں چھ مہینے سے پاکستان بائے روڈ جانے کا پلان بنا رہا ہوں۔ اس کے لئے گاڑی بھی تیار کی کہ یہاں سے فیری پہ ایران اور وہاں سے بذریعہ تفتان بارڈر پاکستان۔ لیکن پچھلے دنوں آزاد کشمیر کی ایک خبر دیکھی، وہاں برطانیہ سے آئے پاکستانیوں کی قیمتی گاڑیاں مقامی سرکاری انتظامیہ نے اٹھا کر کمشنر ہاؤس میں بند کر رکھی ہیں اور کوئی وجہ بھی نہیں بتا رہے تھے۔ پھر ایک دوست سے بات ہوئی تو کہنے لگا یار گاڑی نا لے کر آؤ، ہو سکتا ہے کسی کو تفتان بارڈر پہ ہی پسند آ جائے اور تمہیں کوئٹہ سے فلائٹ لے کر اسلام آباد یا واپس جانا پڑ جائے۔ یہاں اپنے شہری اٹھانے کے ہزار بہانے ہیں لوگوں کے پاس، وہ تو ایک غیرملکی نمبر پلیٹ والی گاڑی ہے۔ میں نے پلان کینسل کر دیا کہ بجائے پاکستان کے ایران ہی گھوم پھر کر واپس آ جائیں گے۔ یہ اس بندے کا خوف ہے جو پاکستان میں وکیل رہا، قانون کو سمجھتا ہے کہ پولیس کن حالات میں ایک شہری کو روک سکتی ہے___ عام آدمی کیا کرے گا۔‘‘