دشمن کے ارادوں سے باخبر ہونے ،اپنی روایت کو مستحکم کرنے اور پاکستان سے محبت ،یہ مقاصد لے کر بلوچ نوجوان پاک فوج میں بھرتی ہو رہے ہیں۔ہم چونکہ سیاسی و ثقافتی موضوعات میں الجھے رہتے ہیں اس لئے سکیورٹی سیکٹر میں رونما مثبت تبدیلیاں سامنے نہیں آ پاتیں ،پھر ان معلومات کے لئے سکیورٹی اداروں کا اپنا ایک نظام ہے اس لئے بھی ہر معاملہ زیر بحث نہیں آ پاتا۔ وفاق پاکستان کے بے شمار رنگ ہیں ۔ صوبے، علاقے، سول سوسائٹی اور سیاسی پارٹیاں۔ تاہم پاکستان کا بنیادی رنگ، کسی بھی دوسرے ملک کی طرح اس کی آبادی ہے، جس کے گرد سلامتی سے لے کر معیشت اور سیاست سے لے کر حکمرانی تک ہر چیز جڑی ہوئی ہے۔ سرکاری ادارے ہیں۔ پاک فوج ہے جس کے کردار اور افعال کے حوالے سے آئین میں خصوصی ذکر ہے۔ 'مسلح افواج' کے عنوان سے آئین کا باب II مسلح افواج کی کمانڈ، حلف اور افعال کو بیان کرتا ہے۔ بلوچستان کی بات ہے اس لئے پاک فوج کی بلوچ رجمنٹ کا ذکر آئے گا۔بلوچ رجمنٹ ایک انفنٹری رجمنٹ ہے۔ مئی 1956 میں آٹھویں پنجاب اور بہاولپور رجمنٹ کے بلوچ رجمنٹ کے ساتھ انضمام کے بعد اس کی جدید تشکیل ہوئی۔ مزید اضافہ نے رجمنٹ کی طاقت کو 27 بٹالین تک پہنچا دیا ہے۔ بلوچ رجمنٹ پرانی برٹش انڈین آرمی کی انفنٹری سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا نام بلوچستان (قدیم بلوچستان) کے نام پر رکھا گیا ہے۔ 1991 سے پہلے اسے بلوچ رجمنٹ کہا جاتا تھا لیکن درست تلفظ کو بہتر انداز میں ظاہر کرنے کے لیے ہجے کو تھوڑا تبدیل کر دیا گیا۔بلوچ رجمنٹ سنیارٹی میں پنجاب رجمنٹ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کی سب سے سینئر بٹالین دو سو سال پہلے 1798 میں قائم ہوئی تھی۔ رجمنٹ کا پاکستان کی آزادی سے پہلے اور بعد میں فوجی خدمات کا ایک ممتاز ریکارڈ ہے۔ اس نے 6 وکٹوریہ کراس، ایک جارج کراس،ایک بار 6 ہلال جرات، 4 بار 68 ستارہ جرات، اور 81 تمغہ جرات سمیت متعدد اعزازات حاصل کیے ہیں۔رجمنٹ کی جنگی اعزازات کی طویل فہرست 1809 میں کوچین کی لڑائی سے شروع ہوتی ہے۔ بلوچستان میں معاشی و تجارتی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔کاروبار کو ہمیشہ امن کی سر پرستی درکار ہوتی ہے۔سب سے قابل بھروسہ عمل مقامی آبادی کا سکیورٹی کیلئے آگے آنا ہوتا ہے۔یہ ساری تمہید اس لئے باندھی کہ ایک دوست بتارہے تھے کہ بلوچ نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے پاکستان کی مسلح افواج میں بڑی تعداد میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ بلوچستان سے عسکریت پسند گروہوں کی سرگرمیاں پڑھنے والے سمجھتے ہیں کہ پاک فوج میں بلوچ نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر بھرتی ایک صحت مند رجحان ہے۔ 12 دسمبر 2013 کو کوئٹہ میں واقع الیکٹریکل اینڈ مکینیکل انجینئرنگ (EME) کور کے ٹریننگ سینٹر میں پاسنگ آؤٹ تقریب کے دوران چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا کہ 20,000 بلوچ 2010 سے پاکستانی فوج کی صفوں میں بطور سپاہی شامل ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ "بلوچ نوجوانوں کی پاک فوج میں شمولیت کے لیے یہ زبردست آمادگی پاکستان کے لیے ان کی غیر متزلزل محبت اور اس کے دفاع کے لیے حقیقی فکر کو ظاہر کرتی ہے۔" یہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ ان سپاہیوں کے علاوہ سینکڑوں بلوچ پاکستانی فوج میں بطور افسر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان آرمی کا ڈھانچہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کی علامت ہے۔ پنجاب رجمنٹ، بلوچ رجمنٹ، فرنٹیئر فورس رجمنٹ، سندھ رجمنٹ، آزاد کشمیر (AK) رجمنٹ اور ناردرن لائٹ انفنٹری (NLI) رجمنٹ۔ بلوچستان میں ایف سی، لیویز، پولیس، اور سی ٹی ڈی میں بھرتیاں دیگر محکموں کی طرح زیادہ تر مقامی علاقوں سے کی جاتی ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے سکیورٹی فورسز میں اعلیٰ عہدوں تک ترقی پائی ہے۔ بلوچستان کے نوجوان ہمیشہ پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور پاکستان آرمی، لیویز اور فرنٹیئر کور بلوچستان میں شامل ہونے کیلئے ایک عرصے سے دلچسپی ظاہر کرتے رہے ہیں۔ دوست بتا رہے تھے کہ 8 اگست 2023 کو ایف سی بلوچستان کے ریکروٹس کا 67 واں بیچ ایف سی ٹریننگ سنٹر لورالائی سے پاس آؤٹ ہوا جس میں بلوچستان سے 316 ریکروٹس شامل تھے۔ 2021 سے اب تک 4804 بلوچ نوجوان اپنے وطن کے تحفظ کے لیے ایف سی بلوچستان میں شامل ہو چکے ہیں۔ اپریل 2023 میں 147ویں PMA لانگ کورس کے پاس آؤٹ ہونے والے کیڈٹس میں سے 45 کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک دشمن طاقتیں بلوچستان کے عوام اور افواج پاکستان کے درمیان خلا پیدا کرنے کی کوششوں میں ناکام رہی ہیں۔ ملٹری کالج سوئی سے پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے) میں انتخاب کا تناسب 51 فیصد ہے، جو بلوچ نوجوانوں کی پاکستان آرمی میں شمولیت کے لیے بڑھتی ہوئی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ذمہ دار ذرائع بتاتے ہیں کہ ملٹری کالج سوئی سے گریجوایشن کرنے والے بلوچستان کے 38 کیڈٹس اس وقت پی ایم اے میں زیر تربیت ہیں اور اب تک ملٹری کالج سوئی کے 149 کیڈٹس پاک فوج میں کمیشن حاصل کر چکے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے پاکستان آرمی میں بھرتی کے لیے عمر کی بالائی حد میں خصوصی چھوٹ دی گئی ہے تاکہ ان کے اندراج کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ بلوچستان میں تعلیمی سہولیات کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے فوج میں بھرتی کے لیے تعلیمی میرٹ میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مسلح افواج میں بلوچستان کا کوٹہ بھی بڑھایا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عسکری قیادت یہاں سے زیادہ سے زیادہ افسران اور سپاہیوں کو بھرتی کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 6.9 ملین بلوچ ہیں۔ ایران میں تقریباً 20 لاکھ نسلی بلوچ ہیں اور مشرقی صوبہ سیستان و بلوچستان کی آبادی کی اکثریت بلوچ نسل کی ہے۔ پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بلوچ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی شمولیت سے علاقے میں بے روزگاری میں کمی کے علاوہ عوام کی زندگیوں میں بھی بہتری آ رہی ہے۔باہمی اعتماد کا تعلق مستحکم ہو رہا ہے اور مقامی آبادی ریاستی امور میں دلچسپی دکھا رہی ہے۔یہ دلچسپی ہی دراصل بلوچستان میں سی پیک اور گوادر جیسے منصوبوں کی کامیابی میں کردار ادا کر رہی ہے۔