فقرے اور لفظ کا ایک بوجھ ہوتا ہے۔کسی کے لئے یہ تنکے برابر‘ کسی کے لئے سومن۔ایک اسی برس کا بوڑھا یہ کہنے کا بوجھ اٹھا سکتا ہے ’’بھارت میں پٹھان ہٹ ہو گئی‘پاکستان میں پٹھان پر ایف آئی آر درج ہو رہی ہیں‘‘ پھر یہ کہ ’’میں نے ہمیشہ اپنے کپڑے خود تبدیل کئے‘ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا میرے کپڑے اتارے‘ پنجاب پولیس کو بزرگوں کو ننگا دیکھنے کا شوق ہے‘‘۔ یہ فقرہ کیسا غضب ناک ہے ’’پاکستان نمک پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے لیکن نمک حرام پیدا کرنے میں پہلا‘‘۔ انور مقصود فقرے سے مزاحمت کے شاہکار بناتے ہیں۔ یہ لفظ اور فقرے اس قدر دادکیوں پا رہے ہیں۔دراصل تحریر کا عام لوگوں سے متعلق ہونا اہم ہوتا ہے۔پچھلے بیس بائیس سال میں نے دیکھا کہ بڑے بڑے فاضل لوگ کالم لکھنے کی طرف آئے۔کچھ کالم لکھے اور پھر بے دل ہو کر لوٹ گئے۔ان کے علم‘ معلومات اور اخلاص پر شبہ نہیں لیکن وہ لوگوں سے بات کرتے ہوئے مہاتما بن جاتے ہیں۔لوگ انہیں ایک برتر شخصیت سمجھنے لگتے ہیں۔عام لوگوں میں بیٹھ کر عام سے موضوعات پر انوکھی بات کہہ دینے کا ہنر کم لوگوں کو ملا۔ ایک بار استاد مکرم اطہر ندیم صاحب نے میری تربیت کی غرض سے پوچھا: یہ سلیس اردو کیا ہوتی ہے۔ان سے پہلے سکول اور کالج کی کئی جماعتوں میں یہ سوال امتحانی پرچوں میں شکل بدل بدل کر آتا رہا تھا۔میں نے اسی طالب علمانہ فہم کے ساتھ جواب دیا۔ ’’آسان اردو‘‘ ۔انہوں نے سر نفی میں ہلایا۔بولے:سلیس کا مطلب جملہ لکھتے وقت یہ اہتمام کرنا کہ پہلے لکھے جملے کا جواز ہو۔سلیس ہونا عبارت اور مفہوم کے درمیان تعلق کا جواز ہے۔لفظ سے لفظ کا تعلق‘ جملے سے جملے کا تعلق اور پیراگراف سے پیراگراف کا تعلق ۔اسلوب اسی سے بنتا ہے۔ میں نے کئی بار سوچا کہ پہلے زمانے میں سیاست دانوں سے زیادہ ادیب اور شاعر جیل جایا کرتے تھے۔’’ہتھکڑیاں میرا زیور اور جیل میری سسرال‘‘ جیسے جملے انقلابی ادیب کہا کرتے تھے۔تمام سفاکیت کے باوجود اس وقت کی پولیس، گورنر اور آمروں کو اتنا حیا ہوتا تھا کہ وہ مخالفین کو عزت دار سمجھتے اور ان پر ایسی دفعات کے مقدمات درج کرائے جاتے جو جمہوری اور بنیادی حقوق کی مزاحمت کی ذیل میں آ سکتے تھے۔اس صورتحال میں کئی دلچسپ واقعات سامنے آئے۔حبیب جالب کے مقدمات کو اتنی شہرت ملی کہ حکمران ان سے جان چھڑانے پر مجبور ہو جاتے ،ایک غریب شاعر ،جو لٹھ چلانا جانتا تھا نہ بندوق چلانا۔انہیں تو تشدد کا زبانی اظہار تک نہ آتا۔ایسا شخص عام آدمی کے دکھوں کا ترجمان بن جاتا تو اس کے پیچھے کروڑوں لوگ آکھڑے ہوتے ۔یہ آ کھڑے ہونا جلسہ بھرنے کے معانی میں نہیں ،وہ دل سے جالب کو وہ مقام دیتے جو کسی امیر محمد خان، ایوب خان اور بھٹو کو نہیں دیا۔ حمید اختر صاحب کئی بار گرفتار ہوئے ، الزام لگتا کہ حکومت کے خلاف سازش کر رہے ہیں ۔ ایک بار تو غداری کا مقدمہ تک درج ہو گیا ۔ بھٹو صاحب آخری حکمران تھے جنہوں نے مخالف نقطہ نظر رکھنے والے ادیبوں پر سختی کی اور پھر ان سے اتنا ہی پیار کیا۔اس کے بعد مزاحمت کا رومانوی رنگ ادب میں پھیکا پڑگیا ۔ مزاحمت کا ایک رنگ اور ہے۔ یوں کہہ لیں کہ یہی اصل رنگ ہے۔ اگر کسی قوم کو اس کی زبان‘ اس کے سورمائوں‘ اس کے شاندار ماضی اور اس کی عظیم روایات سے دور کر دیا جائے اور ایک ادیب مسلسل اپنے پڑھنے والوں کو ان دور کی گئی چیزوں سے قریب کرتا جائے تو وہ تن تنہا پورے نظام کی طاقت کو غیر موثر کر دیتا ہے۔وہ اپنی تحریر میں ان تصورات میں زندگی کی روح پھونک دیتا ہے جنہیں حملہ آور اشرافیہ اپنے تئیں مار کر دفن کر چکی تھی۔مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ناول بہائو‘ خس و خاشاک زمانے اور اب’’بھناں دلی دے کنگرے‘‘ کسی ایک آمر اور کسی ایک زمانے کے جبر کی مزاحمت نہیں۔یہ پنجاب کی مزاحمت کے وہ شاہکار ہیں جنہوں نے تعصب اور نفرت کے حملوں کو ناکارہ کر دیا۔ساتھ میں بہت سے نئے مزاحمت کار پیدا کر دیے۔گویا وہ مزاحمت کے سکول ہیں۔ جہاں راجہ پورس‘ دلا بھٹی اور بھگت سنگھ کا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ ادبی میلے میں جو لوگ گئے ،کیا کسی ادارے نے ان کے نظریاتی رجحان کا تجزیہ کیا؟ کیا حکومت واقف ہے کہ لفظوں سے مزاحمت کرنے والوں کے جذبات کس قدر مشتعل ہیں؟نہیں ۔ جو بھی تشریفات و اندھی مراعات کی دنیا میں وارد ہوتا ہے اسے لگتا ہے، اس نے آب حیات پی لیا ہے ۔اب وہ امر ہے۔اسے لگتا ہے کہ محافظوں کے حصار میں وہ محفوظ ہے ۔کاش ایسا ہوتا ۔ محمود غزنوی کا دور تھا ، فردوسی اپنے پڑوسیوں اور مالی تنگدستی سے پریشان تھا، چند اشعار لکھ کر محمود کی خدمت میں پیش کئے کہ قدر افزائی ہو۔ محمود نے شاہنامہ اسلام لکھنے کی فرمائش کی۔ وعدہ کیا کہ ہر شعر کے بدلے ایک اشرفی معاوضہ ہو گا۔ ایاز اور فردوسی کی دشمنی ہو گئی۔ ایاز نے بادشاہ کو فردوسی سے بد گمان کر دیا۔ کئی برس لگا کر فردوسی نے ساٹھ ہزار اشعار کا شاہنامہ لکھ کر پیش کیا تو بادشاہ نے قدر نہ کی۔ فردوسی نے شکوہ کیا تو بادشاہ نے اشرفی کی جگہ ساٹھ ہزار درہم بھیج دئے ۔فردوسی کا جلال امنڈ آیا ۔ بادشاہ کے ملازموں کو گالیاں دیں۔سارے درہم غریبوں میں بانٹ دئیے۔ سلطان محمود غزنوی کو طیش آیا ۔ شاعر کو ہاتھی تلے کچلنے کا حکم دیا۔ فردوسی نے ایک ہجو لکھ کر دربار بھیج دی ، اس میں سلطان کو غلام کا بیٹا بتایا۔سلطان کے آدمی مدتوں اسے ڈھونڈتے رہے ،وہ شہر شہر چھپتا پھرا ،ایک روز اپنے شہر طوس واپس آ گیا۔ چند روز بعد انتقال ہوا۔ محمود کو اپنے وعدہ نہ نبھانے اور شاعر پر سختی پر افسوس ہوا۔ فردوسی کی بیٹی کی نذر ساٹھ ہزار اشرفیاں کیں لیکن اس نے یہ کہہ کر معذارت کر لی کہ ،ہمیں بادشاہوں کی دولت سے کیا غرض ۔ اہل دربار کو خبر ہو کہ شاہان وقت کی ہجو اب شاعروں کی بیاض اور ادیبوں کے جملوں میں سر اٹھا رہی ہے ۔