معروف سکالرجوزف اے نے شمپیٹر کہا ہے:بیورو کریسی جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ اس کی ناگزیر تکمیل ہے۔بیورو کریسی کے پاس قانونی طور پر اختیار ہوتا ہے کہ ہر اس انفرادی یا اجتماعی کام کو روکے جس کی قانون اجازت نہیں دیتا۔اس اہم کام کے لئے ملک بھر سے چنیدہ افراد کومقابلے کے امتحان سے گزار کر اہلیت اور میرٹ کے لحاظ سے اعلیٰ درجے کی ملازمت دی جاتی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں بیورو کریسی پر خدمت کے بجائے عوام پر حکمرانی کا الزام رہا ہے انگریز نے بھی افسر شاہی کا نظام تشکیل ہی ایک غلام ملک پر تسلط برقرارکھنے کے لئے دیا تھا‘اس کے باوجود بزرگوں کو اکثر یہ کہتے سنا : انگریز نے شیر اور بکری کو ایک ہی گھاٹ سے پانی پلا دیا۔قیام پاکستان کے بعد المیہ یہ ہوا کہ سیاست دانوں کی کج فہمی اور ہوس اقتدار نے غلاموں کے لئے تشکیل بیورو کریسی کے سسٹم کو بھی تباہ کر کے رکھ دیا۔ ایوب خان کے اقتدار کوطول دینے کی خواہش نے قانون کی حکمرانی کونگل لیا۔بیورو کریسی میں سے اگر کسی نے غیر قانونی اقدام کے خلاف مزاحمت کی تو ایسے باضمیر افسروں کو نشان عبرت بنا دیا گیا۔اس طرح بیورو کریسی اقتدار کی حصہ دار بن گئی۔ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء میں جے اے رحیم کے ساتھ مل کر بیورو کریسی میں اصلاحات کے نام پر 1300بیورو کریٹ کو فارغ کر کے بیورو کریسی کو عدم تحفظ کا شکار کر دیا۔ اصلاحات کے نام پر ملکی نظام کے ساتھ اس طرح کھلواڑ کیا گیاکہ بغیر مقابلے کے سینکڑوں افراد کو سیاسی رشوت کے طور پر بیورو کریسی میں بھرتی کیا‘ جس سے نچلی سطح تک مالی کرپشن کے رجحان کا آغاز ہوا ۔ضیاء الحق نے بھی اقتدار کو تحفظ دینے میں معاونت کے لئے بیوروکریسی کو استعمال کیا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے بھی بیورو کریسی میں سیاسی مداخلت کے ذریعے تباہی میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔پاکستانیوں کا المیہ یہ رہا کہ یہاں جو بھی آیا انقلاب کا دعویدار آیا۔مگر ان انقلابوں میں لوٹ مار اور کرپشن کرنے والوں کی چاندی رہی۔عوام بقول شاعر یہی دھائی دیتے رہے: کئی انقلاب آئے جہاں میں مگر آج تک دن نہ بدلے ہمارے 2018ء کے انتخابات میں عوام نے دن بدلنے کے لئے عمران خان کو ووٹ دیا۔اقتدار میں آنے کے بعد بلاشبہ عمران خان نے اپنے تئیں تبدیلی کی کوشش بھی کی۔تحریک انصاف نے اپنے ایجنڈے پر کام کرنے کے لئے بیوروکریسی میں اصلاحات کا بیڑا اٹھایا‘ تو مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا‘ جو بیورو کریسی میں مزید تبادلوں پر منتج ہوا۔تین سال بعد نوعیت یہاں تک آن پہنچی کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی تبدیلی کو آئی جی اور چیف سیکرٹری صاحبان کی ’’تبدیلی‘‘ کا طعنہ دیا جانے لگا۔پنجاب میں پانچ چیف سیکرٹری تبدیل کرنے کے بعد عمران خان کی نظر کامران علی افضل پر پڑی۔کامران علی افضل کو بھی شاید گزشتہ تین سال میں تبدیل ہونے والے چیف سیکرٹریز اور معاملات کی حساسیت کا بھی اندازہ ہو گیا تھا۔اسی لئے انہوں نے رضا ہمدانی کے اس شعر کے مصداق فیصلہ کیا: بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو کہاں تک چلو گے کنارے کنارے آج کل کامران علی افضل تحریک انصاف کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کے لئے اپنی پوری توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔تند لہروں سے اس طرح الجھ رہے ہیں کہ 74برس کی تاریخ کے برعکس اپنے دفتر کے دروازے پنجاب کے غریب عوام کے لئے کھول دیے ہیں۔اپنے ماتحت افسر شاہی کو بھی عوام سے رابطے کے ذریعے خدمت کا احساس دلانے پر مجبور کررہے ہیں۔پنجاب کی تاریخ میں یہ شاید پہلی بار ہوا کہ سائلین بغیر کسی سفارش اور اپوائٹمنٹ کے ساڑھے دس سے گیارہ بجے کے دوران چیف سیکرٹری سے مل سکتے ہیں۔ چیف سیکرٹری پورے انہماک کے ساتھ سائلین کی بات ہی نہیںسنتے بلکہ موقع پر ہی متعلقہ افسران کو معاملہ دیکھنے کی ہدایت کرتے ہیں۔یہ کام صرف دکھاوا نہیں بلکہ سائل کی درخواست کی ایک کاپی سائل کو اور اصل درخواست متعلقہ بیورو کریٹ کو بذریعہ ڈاک ارسال کی جاتی ہے۔کامران علی افضل کا سٹاف ملاقاتیوں کی درخواستوں کا صرف ریکارڈ ہی رکھنے کا نہیں بلکہ فالو اپ کا بھی پابند ہے۔ سائل کا جائز کام نہ ہونے کی صورت میں چیف سیکرٹری خود دوبارہ ان سے رابطہ کرنے کا کہتے ہیں۔ کامران علی افضل کے کنارے کنارے نہ چلنے کے فیصلے کے باعث’’ تبدیلی‘‘ پنجاب کی بیورو کریسی میں محسوس کی جا رہی ہے۔چیف سیکرٹری نے اپنے ماتحت بیورو کریٹ کو افسر شاہی انداز چھوڑ کر کھلی کچہریاں لگانے اور عوام سے رابطہ رکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ چیف سیکرٹری کی عوامی مشکلات حل کرنے میں سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پنجاب کے دور دراز علاقوں کے لوگوں کے لئے ٹوئٹر پر شکایات درج کروانے کا جدید نظام متعارف کروایا گیا ہے۔محکمہ آئی اینڈ سی کو حکم ہے کہ ٹوئٹر پر موصول ہونے والی شکایات کا فوری ازالہ کرکے انہیں اطلاع دی جائے۔ تند لہروں سے لڑنے کا ثمر ہے کہ پنجاب میں کھاد کی بلیک فروخت کا معاملہ سامنے آیا تو انتظامیہ فوراً متحرک ہو گئی۔36ہزار 200بوری کھاد منافع خور مافیا کے گوداموں سے ضبط کر کے غریب کسانوں کو سرکاری نرخوں پرفراہم کی گئی۔پنجاب کی سرحدوں سے کھاد اور گندم سمگلنگ روکنے کے لئے چیف سیکرٹری انتظامات کا جائزہ لینے صوبے کی سرحدوں پر خود گئے۔مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔صحت کے منصوبوںکی بروقت تکمیل کے لئے افسر شاہی کے ساتھ موقع پر جاتے ہیں۔ پنجاب کے کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز کوفلاح کے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی گئی ہے۔سروسز ڈیلیوری کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے سفارش کے بجائے میرٹ کو یقینی بنایا گیا ہے۔ہسپتالوں میں ادویات کی قلت کا مسئلہ ہو یا نئے ہسپتالوں کی تعمیر‘ان کی ہر معاملہ پر نظر ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے جس تبدیلی کا عوام سے وعدہ کیا تھا‘ تبدیلی آ سکتی ہے مگر اس کے لئے وزیر اعظم عمران خان کو بیوروکریسی کے درست اقدامات کی ستائش کرنا اور سیاسی مداخلت خاتمہ کرنا ہو گا۔ چیف سیکرٹری کو اہداف کے ساتھ اختیار بھی دینا ہو گا۔ افسر شاہی میں تبادلوں میں سیاسی مداخلت ختم کر کے چیف سیکریٹری کو اختیار دینا ہوگا کہ وہ اپنی مرضی کے افسر لگا کر ان سے اہداف حاصل کریں۔وزیر اعظم یہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر پاکستانیوں سے یہ دعویٰ کرنے میں بھی حق بجانب ہوں گے: تیرگی ختم کر کے روشنی لے آئوں گا زندگی تیرے لئے میں زندگی لے آئوں گا