ابھی حال ہی میں بھارت میں حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قومی ترجمان سدھانشو ترویدی دور کی کوڑی لاکر ایک پریس بریفنگ میں بتا رہے تھے کہ بابری مسجد کی شہادت، رام مندر کی تعمیر اور بھارت کی اقتصادی ترقی کے درمیان براہ راست رشتہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب1992میں مسجد کو مسمار کیا گیا تو بھارت میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم ایک بلین ڈالر تھا۔جب 2003میں محکمہ آثار قدیمہ نے مسجد کے ملبہ تلے کھدائی کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آیا اسکی تعمیر کسی مندر کے اوپر کی گئی تھی، تو غیر ملکی زر مبادلہ کا حجم 100بلین ڈالر پہنچ گیا ۔ جس وقت سپریم کورٹ نے مسمار شدہ مسجد کی اراضی ہندوو ںکے حوالے کرکے رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کردیا تو غیر ملکی کرنسی کا حجم 500بلین ڈالر ہوگیا اور جب اس سال کے اوائل میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں اس مسجد کی جگہ عالیشان رام مندر کا افتتا ح کیا تو غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 600بلین ڈالر تک پہنچ گئے ۔ یعنی کہ اگر ویشوا ہندو پریشد کی لسٹ جس میں وہ تقریباً 25ہزار مساجد کا دعویٰ کرتے ہیں،ان کو اگر مسمار کرکے مندروں میں تبدیل کیا جاتا ہے تو بھارت کے پاس کرنسی کے اتنے ذخائر ہونگے کہ ان کو رکھنے کیلئے جگہ بھی کم پڑے گی۔ایک طرح سے یہ بیان باضابطہ اشتعال دلانے والا اور دیگر عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کی سمت ایک طرح کی ڈائریکشن تھی۔اگر بی جے پی کو اقتدار میں آنے کیلئے صرف عوام کا ووٹ چاہئے تھا تو شاید اس میں کوئی حرج نہیں تھا۔ دنیا کے اکثر ممالک میں دائیں بازو کی جماعتیں اقتدار میں آتی رہتی ہیں۔ مگر بی جے پی عوام کی ذہن سازی کرکے ان کے اوپر اپنی نظریاتی چھاپ ڈال کر نفسیاتی برتری چاہتی ہے۔ بھارت میں انتخابی حکمت علمی کے ماہر پرشانت کشور کے مطابق بی جے پی ووٹ لینے کے بعد مطالبہ کرتی ہے کہ اس کی پوجا کرو، کھانے، پہننے اور حتیٰ کہ کس کے ساتھ دوستی کرنی ہے اور کس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے، اس طرح کی ہدایت کی بھی پیروی کرو۔ بھارت میں ہندو قوم پرستی کا سفر گو کہ سو سال پرانا ہے مگر اس کو پروان چڑھانے میں سیکولر پارٹیوں یعنی کانگریس اور سوشلسٹوں یعنی جنتا دل پارٹی وغیرہ کا بھر پور ہاتھ رہا ہے۔ اس دوران ان پارٹیوں نے اپنی سیاسی زمین فرقہ پرست پارٹیوں کے سپرد کی۔ کہاں وہ بی جے پی، جس کو 1984کے لوک سبھا انتخابات میں بس دوسیٹیں حاصل ہوئی تھیں اور پھر 2019تک اس نے بتدریج سوشلسٹوں کا مکمل اور کانگریس کا جزوی صفایا کرکے ایوان میں تین سو نشستیں حاصل کیں۔ معروف صحافی اور بی بی سی کے سابق اینکر اور بھارت میں نامہ نگار قربان علی کے تحقیقی مقالوں کے مطابق اگر یہ دو طاقتیں ، ہندو فرقہ پرستی کا ہاتھ نہ تھامتی تو یہ ابھی بھی بھارتی سیاست کے حاشیہ پر ہوتی۔ دستاویزات کا حوالہ دیکر وہ بتاتے ہیں کہ مئی 1950کو ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے خبردار کیا تھا کہ فرقہ واریت ملک کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ نہرو کا کہنا تھا ملک کو چیلنج پاکستان کی طرف سے اتنا زیادہ نہیں ، جتنا اپنے ان لوگوں کی طرف سے ہے، جو فرقہ وارانہ خطوط پر سوچتے ہیں۔ 1958میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں نہرو نے اکثریتی طبقہ کی فرقہ پرستی کو ملک کیلئے سب سے خطرناک بتایا تھا۔ مگر جلد ہی اس پارٹی نے اپنے ووٹ بینک کو بچانے کیلئے اکثریتی برادری کے ذہنوں میں ایک فرضی عدم تحفظ کا احساس بٹھانے کا کام شروع کیا۔ اندرا گاندھی نے اس کو شروع کیا اور ان کے فرزند راجیو گاندھی نے اس کو ایک انتہا تک پہنچادیا۔ اس کا انجام یہ نکلا کہ راجیو گاندھی ، کانگریس کے آخری ایسے وزیر اعظم تھے، جنہوں نے اپنے بل بوتے پر ملک پر حکومت کی۔ اس کے بعد کی دو کانگریسی حکومتیں نرسمہا راو اور من موہن سنگھ کی زیر قیادت اتحادیوں کے دم پر قائم ہوئیں۔ قربان علی کے مطابق مشہور دلت لیڈر آنجہائی جگ جیون رام، جو 1980کے انتخابا ت میں جنتا پارٹی کے وزارِت عظمیٰ کے امیدوارتھے ، نے نتائج آنے کے بعد کہا کہ اندرا گاندھی نے اقتدار میں آنے کیلئے ہندو کارڈ کا استعمال کیا۔ اندرا اس وقت تک سیکولرازم اور نہرو کے اصولوں سے بہت دور چلی گئی تھیں۔ اپنے مقالہ ’’کانگر یس نے راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کی فرقہ وارانہ سیاست کو کیسے جائزبنایا،‘‘ میں قربان علی بیان کرتے ہیں کہ آر ایس ایس نے مبینہ طورپر 1980اور 1984کے انتخابا ت میں کانگریس کو جیتنے میں مدد کی۔ آر ایس ایس ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم ہے۔اس کی درجنوں شاخیں ہیں، جو مختلف میدانوں میں کام کرتی ہیں۔واضح رہے کہ بی جے پی اس کی سیاسی شاخ ہے۔ 1980میں جب اندرا گاندھی دوبارہ برسراقتدار آگئی تو وہ ایک بدلی ہوئی شخصیت تھی۔ اس نے اقتدار میں رہنے کیلئے مذہب کی بیساکھی کو بھر پور طریقے سے استعمال کرنا شروع کردیا۔ ملک بھر کے مندروں کے دورے کرنے کے ساتھ ساتھ یوگا گورودھریندر برہمچاری سمیت کئی سادھو سنتوں کو اقتدار کے گلیاروں تک رسائی دی گئی۔ وہ اب ہر کام نجومیوں کے مشوروں سے کرنے لگی تھی۔ کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا حوالہ دیکر قربان علی کہتے ہیں کہ اندرا گاندھی کا غریبی ہٹاو کا نعرہ افادیت کھو چکا تھا۔ ووٹروں کو لبھانے کیلئے کسی نئے نعرہ کی ضرورت تھی اور اس کے نتیجے میں اس نے ہندو کارڈ کا استعمال کرنا شرو ع کردیا۔ 1981میں تامل ناڈو کے مقام مینا کشی پورم میں 800دلتوں نے ہندو اعلیٰ ذاتوں کے مظالم سے تنگ آکر اسلام قبول کرلیا۔ نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے اندرا گاندھی نے اس واقعے کو خلیج سے آئے پیٹر و ڈالروں سے منسوب کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ خلیجی ممالک سے آئے ڈالروں سے غریب ہندوئوں کو مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ 1983میں جموں و کشمیر کے اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر اندرا گاندھی نے ہندو کارڈ کا کھل کر استعمال کیا۔ پہلی بار کسی نے ہندو اکثریتی جموں بنام مسلم اکثریتی وادی کشمیر کی پولرائزیشن کرکے سیاسی فائدہ اٹھایا۔ بطور وزیر اعظم انہوں نے کانگریس کیلئے انتخابی مہم کی کمان خود سنبھالی تھی اور نو دن تک جموں میں ان کا قیام رہا۔ اس دوران وزارت عظمیٰ کا پورا دفتر ہی جموں منتقل ہو گیا تھا۔ 1991میں سوشلسٹ لیڈر مدھو ڈنڈاوتے نے لکھا کہ اندرا گاندھی نے جموں میں ایک جلسہ عام میںہندو ووٹروں کو کہا کہ ان کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہے۔ ا ن کا واضح اشارہ نیشنل کانفرنس کی طرف تھا۔ ان کا کہنا تھا صرف کانگریس ہی ان کی حفاظت کرسکتی ہے۔ وادی کشمیر کے مسلمانوں کو انہوں نے پیغام پہنچایا کہ بھارت کی جمہوریت کے سائے میں ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔ ان انتخابات میں جموں کی تمام سیٹیں کانگریس کی جھولی میں گر گئیں، مگر اس کے بعد حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے گئے ، جو بعد میں 1989میں عسکری جدو جہد پر منتج ہوگئے۔ اس کی داغ بیل اندرا گاندھی ڈال چکی تھی۔ان انتخابات میں آرایس ایس نے کانگریس کی کھل کر مدد کی۔ (جاری ہے)