میں بینظیر بھٹو کا نوحہ لکھنا چاہتا ہوں، کہاں سے شروع کروں، بھٹو کی پنکی سے، شاہنواز اور مرتضیٰ کی لاڈلی بہن سے ، جن کو اس نے اپنی زندگی میں کھویا اور اتنے دردناک حالات اور طریقے سے کھویا کہ خدا کسی دشمن کو بھی اس دکھ سے آشنا نہ کرے۔پھر خود بھی اسی قسم کے ظلم کا شکار ہو کر، یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا، کیونکہ اس خون کا حساب لینے والے اپنے تھے لیکن ہر قسم کا اختیار ہونے کے باوجود انہوں نے شہید کے قاتلوں کوڈھونڈنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اسکے خون کے صدقے حکمرانی پانے والوں نے بی بی اور اسکے بابا کے نام پر ووٹ تو لئے لیکن جو حق شہید رانی کا تھا وہ کبھی لوٹانے کی کوشش نہیں کی۔اگر کچھ تھا تو دولت جمع کرنے کی ہوس، اقتدار سے چمٹے رہنے کا شوق، جس کے لئے شہیدوں کے خون کو بیچ بیچ کر یہ ظالم تھکنے کو نہیں آ رہے۔اقوام متحدہ کی ٹیم کے سربراہ کہتے ہیں کہ بینظیر کے وارث اسکی تحقیقات میں سنجیدہ نہیں تھے بلکہ انہیں مجبور کر رہے تھے کہ انکی لکھی ہوئی رپورٹ کو اپنا لیا جائے۔اور اسکی کاپی بھی انہیں دی گئی۔ گزشتہ دنوں بینظیر شہید کی برسی تھی ، خیال تھا کہ بی بی شہید کے وارث اسکو یاد کرینگے، لیکن وہاں تو منظر ہی کوئی اور تھا۔چیخ و پکار تھی لیکن اس لئے نہیں کہ انہوں نے گیارہ سال پہلے دھرتی کی لاڈلی کو کھو دیا تھا، بلاول نے اپنی ماں اور آصف زرداری نے اپنی انمول بیوی کو کھو دیا تھا۔چیخ و پکار اس مال و اسباب کی بدولت تھی جس کے کھونے کا ان کو ڈر لاحق ہو چکا ہے۔رونا اس بات کا تھاوفاق اور باقی صوبے تو پہلے ہی ہاتھ سے گئے کہیں سندھ کی حکمرانی بھی نہ چھوڑنی پڑ جائے۔ وہ عیش و آرام جو لوگوں کے نام پر ترقیاتی منصوبے بنا کر اپنی ترقی کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑجائیں۔ جب بینظیر کے وارث ہی نوحہ خواں نہیں تو میں کس بات کا نوحہ لکھوں، اور لکھوں بھی تو کیا لکھوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی جو واقعی عوامی جماعت تھی جس قائد کی محبت میں لوگوں نے اس کی پھانسی کا سن کر خود سوزی کی،بھٹو کی بیٹی نے باپ کی وراثت کو جن مشکل حالات میں سنبھالا اور گیارہ سالہ سیاہ رات کے بعد ایک روشنی کی صورت میں عوام کے لئے امید کا پیغام لائیں، وہ جماعت اب زرداریوں اور انکے حواریوں کی لوٹ مار کے تحفظ کے لئے تلی بیٹھی ہے۔ اور اس صف میں کون کونسے چہرے دیکھ رہاہوں۔، بھٹو اوربی بی شہید کی قبروں کے سامنے کھڑے ہو کر وہ یہ باتیں سن بھی کیسے رہے تھے۔ کسی میں جرات نہیں تھی کہ کھڑا ہوتا اور کہتا کہ بی بی اور اسکے بابا نے قربانی اس دن کے لئے نہیں دی تھی کہ آپ اپنے کرتوتوں کے انجام سے بچنے کے لئے انکا خون بیچ دو۔اگر سب کے سامنے پوچھنے کی ہمت نہیں تھی تو بند دروازوں کے اندر جب پارٹی کا اجلاس ہو رہا تھا تو پوچھ لیتے کہ محترم ہر دفعہ آپ کا نام ہی کیوں آتا ہے۔ ہم بھی تو اسی پارٹی میں دہائیوں سے ہیں وزیر بھی رہے ہیں ہمیں تو کوئی مسٹر 10پرسنٹ وغیرہ کے نام سے نہیں پکارتا، ہمارا تو جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ میں نام نہیں آتا۔ کم از کم ہمیں تو بتا دیں کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟جے آئی ٹی کی رپورٹ جھوٹی ہو گی لیکن سچ کیا ہے یہ بھی تو پتہ چلے۔بی بی شہید کو مرنے کے بعد تو سچ سننا نصیب ہو کہ اسکے وارث بے گناہ ہیں۔لیکن لگتا ہے کہ بھٹو خاندان کو کسی کی نظر کھا گئی ہے انکے نصیب میں مر کر بھی چین نہیں ہے۔ ماں قبر کے اندر کیسے کرب میں ہو گی جب اسکا لاڈلا بیٹا بلاول اس کی طرح عدالتوں کے چکر لگا رہا ہو گا اور اسکو پتہ بھی نہیں ہو گا کہ کہ اسکے نام پر بھی اسکے اپنوں نے کیا کیا گل کھلائے ہوئے ہیں۔وہ کیسا لمحہ ہو گا جب اسکو پتہ چلے گا کہ عوام کو ہی نہیں اسے بھی دھوکے میں رکھا گیا۔ وہ اس عوام کا سامنا کیسے کرے گا جو اسکی ماں اور نانا کے نام پر جان دینے کو تیار ہوتے تھے اور اب بھی ہیں۔کیا ان ظالموں نے ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا کہ ایک دن انہیں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کا سامنا کرنا ہے۔ کیا یہ آب حیات پی کر آئے ہیں کہ اس خوف سے مبرّا ہیں اور اتنی دولت بھی اسی لئے جمع کر رہے ہیں کہ اگلی کئی صدیوں کا بندوبست کر لیں۔کہتے ہیں کہ کفن کی جیب نہیں ہوتی تو یہ دولت ساتھ لے کر کیسے جائیں گے یا پھر فراعین مصر کی طرح اپنی قبروں میں ڈالروں کے صندوق ساتھ دفن کرائیں گے۔ کچھ رحم کریں قوم پر نہیں تو اپنے پیاروں پر رحم کر لیں، شہیدوں کی اس جماعت پر ہی کر لیں جس نے ہمیشہ اس ملک کے غریب عوام کو ایک امید دی ہے، زندہ رہنے اور لڑنے کا حوصلہ دیا ہے۔ لیکن آپ کو کیا معلوم آپ نے ضیاء کا دور دیکھا ہوتا تو آج آپ میں حکمرانوں کو دھمکی دینے کی ہمت نہ ہوتی۔ افسوس صد افسوس وہ لوگ بھی گنگ ہو چکے ہیں جنہوں نے جان کی بازی لگا کر اس جماعت اور اسکے نظریے کو پروان چڑھایا۔ ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ایسی بھی کیا مجبوری ہے جناب، اگر بھٹو اور بی بی شہید کی پارٹی اور اسکی اولاد کو بچانا ہے تو، خدارا، اسکی تباہی کے درپے لوگوں کو بے نقاب ہونے دیں، ورنہ تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔ آخر میں نوحہ، وسمل پنوار کے شعروں کی صورت میں: اینویں سن دے ہاں کئی سال اگیں ایں راول راٹھ دی پنڈی وچ جینویں سورج سولی چڑھیا ہا اینویں چندر مکھی دھی بھٹو دی اینہہ سیت سڑیے ہوئے پنڈی وچ ایں ماں دھرتی دے دھاڑ لاں توں کھا گولی جھوک لڈا گئی اے اساں وسمل ناں گئے لوکاں دی ہئی جگ جیون دی آس ہکا او وی رس گئی اے ، مکلا گئی اے