گزشتہ کچھ ہفتوں سے ہر دوسرا فرد یہی سوال پوچھ رہا تھا کہ سی ایس پی بلال پاشا نے اتنی شان و شوکت کے باوجود خودکشی کیوں کی؟اس کا آسان سا جواب ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر لاہور کے ساتھ پیش آئے شرمناک واقعہ سے مل سکتاہے ۔ سوشل میڈیا پرہر طرف ایک ویڈیو وائرل ہے کہ سول کورٹ لاہور کے بیلف نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (ریونیو) لاہور عدنان رشید کو ان کے دفتر سے گرفتار کرلیا، ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے فلمی انداز میں بیلف نے آتے ہی ٹیلفونک کال پر مصروف ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے سرکاری پی ٹی سی ایل فون کی لائن کٹ کی اور عملے سے مار پیٹ کرنا شروع کردی۔ بیلف نے عدنان رشید کی طرف دھاوا بول دیا اور اعلیٰ افسر کو ایک جھٹکے میں ہتھکڑی لگائی اور بدسلوکی کرتے ہوئے، دفتر کے عملے کو دھمکیاں دیتے ہوئے دور رہنے کی تنبیہ کی۔ اہم سوال یہ ہے کہ کچی آبادی قرار دی جانیوالی 6 کنال قیمتی زمین کی ملکیت کیس میں تاریخ ایک دن بعد کی تھی لیکن سول جج شفقت رسول کے بھیجے گئے بیلف نے ایک دن پہلے یہ کارروائی کیوں کی ؟مبینہ طور پر بیلف نے نامعلوم پرائیویٹ افراد کے ہمراہ نہ صرف ویڈیو بنائی بلکہ ایڈشنل ڈپٹی کمشنر عدنان رشید کے حوالے سے نفرت اور تحقیر انہ کیپشن کے ساتھ مذکورہ ویڈیو کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا ۔ لینڈ مافیا کس قدر بااثر ہے کہ ناصرف غنڈے بدمعاشوں کے گروہ لیے پھرتا ہے بلکہ ایل ڈی اے اور ڈی سی آفس کے افسران بھی پاکٹ میں رکھتا ہے اور مبینہ طورپر عدالتی مینجمنٹ کے چیمپئن کے طور پر مشہور ہے۔ایسی صورتحال میں کوئی بھی لینڈ مافیا سے ٹکرانے کا نہیں سوچ سکتا۔کوئی اور ہوتا تو نہ صرف مذکورہ لینڈ مافیا کو سرکاری زمین اپنے نام منتقل کرنے دیتا بلکہ خود بھی مال بناتا لیکن حب الوطنی کے جذبے سے سرشار اور دیانتدار آفیسرعدنان رشیدنے سرکاری زمین کے ناجائز انتقال سے صاف انکار کردیا ۔شدید پریشر کے باوجود مکمل تحقیقات تک اس کیس کا فیصلہ التواء میں رکھ دیا۔ عدنان رشید انتہائی خوش اخلاق قابل آفیسر،بہترین دماغ اور ملٹی ٹاسک اچیور کے طور پر مشہور ہیں۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے خلاف بیلف کے ہتک آمیز رویے نے بیوروکریسی میںناصرف ہلچل مچا دی ہے بلکہ عجیب خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔پی ایم ایس ایسوسی ایشن نے اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے سول سروس کیلئے سیاہ دن قرار دیا ۔پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس ایسوسی ایشن نے واضح موقف کے ساتھ اے ڈی سی آر لاہور کی گرفتاری کو اختیارات سے تجاوز اور انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے افسران کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ کرپشن کی حالیہ رینکنگ میں پولیس کے بعد دوسرا نمبر عدلیہ کا ہے جو گزشتہ کئی دہایوں سے کرپشن انڈیکس میں ٹاپ تھری میں ہے۔ عدلیہ کی کارکردگی پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ ماتحت عدلیہ، انصاف کا پہلا دروازہ ہے۔ اس لیے اعلیٰ عدلیہ کو بھی ماتحت عدلیہ کو ٹھیک کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ بیوروکریسی اور عدلیہ کی محاذ آرائی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بیوروکریسی کو ہمیشہ ملک کے مفاد میں فیصلے کرنا چاہئیں ،اگر ملکی مفاد کا خیال رکھنے والے افسران کے ساتھ ایسا سلوک ہوگا تواللہ کا حکم۔مسئلہ یہ ہے کہ اعلیٰ افسروں کو گرفتار پہلے کیا جاتا ہے اور ان پر لگنے والے الزامات کی انکوائری بعد میں ہوتی ہے، بعد میں تفتیش کے دوران پتا چلتا ہے کہ لگائے گئے الزامات غلط تھے لہٰذا با عزت بَری کیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ با عزت برّیت نہیں ہوتی تھی، جھوٹے اور غلط الزامات کے تحت جس طرح سوشل میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے اس سے افسران کی ساکھ کو جو نقصان پہنچتا ہے اس کا ازالہ نا ممکن ہے۔ افسران اور سروس کی ایسی بے توقیری شائد پتھر کے دور میں بھی نہ دیکھی گئی ہو گی ۔ انہی بے اعتدالیوں کے باعث سرکاری افسروں نے خود کو غیر محفوظ سمجھنا شروع کر دیا، متعدد نے وطن کو خیر باد کہہ دیا ۔اگرسرکاری زمین کی حفاظت کی پاداش میں اعلیٰ افسروں کے خلاف مقدمات کا اندراج اور گرفتاریاں ہونی ہیں تو افسران کام کرنا ہی بند کر دیں گے۔ اچھی شہرت کے حامل افسران کے خلاف انتقامی رویہ افسوس ناک عمل ہے۔ایسی صورتحال میں کون سرکاری آفیسر ایمانداری سے کام کرے گا؟ماضی میں جب نیب کی انتقامی کارروائیاں عروج پر تھیں توافسران کو گرفتار اور ہراساں کیا گیا ۔ اس قدر خوف و ہراس کی کیفیت تھی کہ ملکی انتظامی معاملات خراب ہونا شروع ہو گئے۔ جس طرح کاروباری طبقے میں عدم تحفظ کی صورت میں معیشت کا پہیہ نہیں چل سکتا اسی طرح عدم تحفظ کا شکار بیوروکریسی بھی ملک کو بہتر ڈلیور نہیں کر سکتی۔ایک مؤثر بیوروکریسی اور ایماندار افسران کے تحفظ کی گارنٹی کے بغیر ملک کا نظام چلانا مشکل ہوجاتا ہے۔ سرکاری افسران کااستحقاق بھی تسلیم کرناہو گا،عوام کو فوری انصاف دینا اور مسائل کا حل تلاش کرنا ہے تو بیورو کریسی کو بااختیار بنانا ہوگا، بیورو کریسی کو کنٹرول کرنے کے بجائے ان کی کارکردگی بہتربنانے کے لئے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔سینئر صحافی علی احمد ڈھلوں اور محسن گورائیہ کا کہنا تھا کہ بیوروکریٹ تب بھی مرتا ہے جب وہ کسی کی ناجائز بات مانتا ہے اور تب بھی مرتا ہے کہ جب وہ انکار کرتا ہے۔ مرتا وہ اس طرح ہے کہ اُس پر ناجائز مقدمات قائم کیے جاتے ہیں اور اُسے اُس کے خاندان میں اتنا ذلیل کر دیا جاتا ہے کہ وہ یا توخودکشی پر مجبور ہو جاتا ہے یا وہ مستعفی ہونے میں عافیت سمجھتا ہے۔