وزیر اعظم عمران خان نے بدھ کے روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے’’کرپشن کے خاتمے کا وعدہ اقتدار کے پہلے 90دن میں ہی پورا کردیا تھا‘‘ دعوے کے حق میں انہوں نے موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں کوئی بڑا سکینڈل سامنے نہ آنے کو دلیل بنایا ہے۔وزیر اعظم کے اس بیان پر تحریک انصاف سے بے لاگ اور بلا امتیاز احتساب کی امید لگانے والے میر حسن کا یہ شعر ہی گنگنا رہے ہیں: سچ اگر بولے تو ہم سے تو بھلا کیا ہو خوشی جی میں جی آتا ہے سن کر تیرا ہر گاہ کہ جھوٹ اقتدار کی مدت کے لگ بھگ چار برس پورے کرنے کے بعد وزیر اعظم کے اس فرمان پر پاکستان کے کروڑوں میر حسنوں کے ’’جی میں جی آتا ہے‘‘۔ کو آتا رہے مگر زمینی حقائق تو کچھ اور ہی خبر دے رہے ہیں۔ ایک حقیقت تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ بھی ہے جس کے مطابق پاکستان نے کرپشن رینکنگ میں مزید 16ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔2020ء میں شفافیت کے حوالے سے دنیا کے 180ممالک میں پاکستان کا 124واں نمبر تھا مگر تحریک انصاف کے کرپشن کے خلاف جہاد کے نتیجے میں صرف گزشتہ برس میں 140ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔شنید ہے وزیر اعظم نے پارٹی ترجمانوں کو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر حکومت کا دفاع کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی تھی مگر بے تیغ کے یہ سپاہی کیا لڑتے۔فواد چودھری بس یہ کہہ پائے کہ کرپشن پر سپیپشن انڈیکس میں پاکستان کا 3درجے مزید نیچے گرنے کی وجوہات مالیاتی کرپشن میں اضافہ نہیں بلکہ کچھ اور ہیں وہ اور کیا ہیں انہوں نے ٹرانسپیرنسی کی تفصیلات سے مشروط کر دی ہیں۔جہاں تک وزیر اعظم کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں مالیاتی کرپشن کا کوئی بڑا سکینڈل سامنے نہیں آیا توشاید وزیر اعظم تک ان کے وزیروں مشروں کے کارناموں کی رپورٹس نہیں پہنچتیں۔ممکن ہے وزیر اعظم تحریک انصاف کے وزیروں مشیروں پر کرپشن کے 28 الزامات سے بے خبر ہوں یا پھر ان کے نزدیک بڑا سکینڈل ابھی آنا باقی ہے ۔ رہی بات ان کے احتساب کے عمل سے پیچھے نہ ہٹنے کی تو کرشن بہاری نور نے کیاخوبصورت شعر کہا ہے: میں تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے ۔آپ نے احتساب کا کارخیر جن کے ذمہ لگایا تھا تو وہ اپنے اپنے چاہنے والوں کے تحفظ میں کھوئے رہے ہیں۔قوم کو تین سال تک اپوزیشن کی لوٹ مار بتانے والے آپ کے مشیر داخلہ و احتساب تو سابق ہوئے۔ ان کو رخصت کیوں کرنا پڑا اس کی تفصیلات تو کابینہ اجلاس میں آپ کے سامنے آ چکیں ہیں۔ اب یہ کام ایک بار پھر نئے سرے سے شروع ہو گا تین سال میں تو ایک پائی لوٹی دولت کی ملک میں واپس لائی جا سکی نہ کسی کرپٹ سیاستدان کو سزا دلوائی جا سکی۔مشیر احتساب کی تبدیلی ممکن ہے ملک و قوم کے لئے نیک شگون ہو مگر تین سال کی کارکردگی کے بعد یہ مشورہ دینا تو بنتا ہے کہ حضور آئینہ صاف کرنے سے چہرہ صاف نہیں ہوتا، تھوڑی سی مہربانی فرما کر نظام عدل کا چہرہ صاف فرمائیے تو شاید کچھ بات بن بھی جائے۔افسوس کہ نظام عدل میں اصلاحات کا خیال چار سال مکمل کرنے کے بعد آیا۔ باقی بچے پندرہ سولہ ماہ حکومت کیا اصلاحات کر ے گی اور کیا احتساب، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ بھی مت بھولیئے کہ یہ تحریک انصاف یا عمران خان کی ہی ناکامی نہیں بلکہ پاکستانی قوم کے لئے بھی المیہ سے کم نہیں کہ تحریک انصاف نے جوخواب دکھائے تھے وہ اب بکھر رہے ہیں۔صرف احتساب کا خواب ہی نہیں پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے خواب کی کرچیاں بھی اب آنکھوں کو لہولہان کر رہی ہیں۔ پالیسی سازوں کی صلاحیت اور اہلیت کا یہ حال ہے کہ عدالت عالیہ لاہور نے راوی اربن پروجیکٹ کو 1894ء کے ایکٹ کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کلیکٹر زمین حاصل کرنے میں قانون پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہے ہیں۔عدالت نے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی متعدد شقوں خصوصاً دفعہ چار کو آئین کے متصادم قرار دیا ہے۔عدالتی فیصلے کے بعد خوابوں کا شہر بنتا تو دکھائی نہیں دیتا مگر سوال یہ ہے کہ کیا احتساب صرف شریف خاندان کا ہی ہونا ہے یا اس افسر شاہی سے بھی سوال کیا جائے گا کہ لاکھوں میں تنخواہ لینے والے قانونی تقاضے پورے کیوں نہ کر سکے؟ حکومت خود سے سوال بھی کرے کہ راوی اربن اتھارٹی ایکٹ کو آئینی تحفظ فراہم کرنے میں کیوں ناکام رہی۔ تحریک انصاف بالخصوص وزیر اعظم یہ تسلیم کیوں نہیں کر لیتے کہ صرف اپوزیشن کے احتساب میں ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف امور حکومت کی الجھی ڈور کا سرا تلاش کر کے اسے سلجھانے میں ناکام رہی ہے۔سوال مگر یہ بھی بنتا ہے کہ کیا تین سال تک احتساب کرنے میں ناکامی کے ذمہ دارصرف شہزاد اکبر ہی ہیں اور کس طرح یہ پوری حکومت کی ناکامی نہیں؟ اگر وزیر اعظم اس غلطی کو تسلیم کرتے ہیں تب ان کو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ احتساب ہو یا ترقی خوشحالی کی منزل سب سسٹم کی تطہیر سے مشروط ہیں۔ کرپٹ سسٹم اصلاحات کے شفاف پانی سے دھونے کی ضرورت ہے۔ جس کی ابتدا نظام عدل میں اصلاحات سے ہونی چاہیے تھی۔ نظام عدل میں شفافیت انصاف پسندی کو یقینی بنا کر ہی احتساب ہو سکتا تھا اور ملکی ترقی بھی۔ اب ساڑھے تین سال اندھیرے میں تیر چلانے کے بعد اگر حکومت نظام عدل میں اصلاحات کرنے جار ہی رہے ہیں تو صرف تفتیشی افسر کے گریجویٹ ہونے تک ہی محدود کیوں؟ اپنی انا کو قربان کر کے اپوزیشن کی مدد سے پولیس ریفارمز کے ساتھ نظام عدل میں قانونی پیچیدگیاں اور سقم دور کرنے کو بھی یقینی بنایئے ورنہ اگر یہ چلن جاری رہا تو احتساب ، ترقی اور شفافیت کے ساتھ عوام کی تحریک انصاف سے امیدیوں کا بھی گزشتہ تین سال کی طرح مذاق ہی بنتا رہے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو وزیر اعظم کو عوام سے ایک بار پھر تابش دہلوی کی زبان میں یہ شکوہ کرنا پڑے گا: چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر پائوں ڈھکتا ہوں تو سر کھلتا ہے