نئے سرے سے نظام بنانا تو شاید نسبتا مشکل کام ہو لیکن بنے بنائے نظام کو ہو بہو اٹھا کر نافذ کر دینا بھلا کتنا مشکل کام ہے کہ ہم آج تک ایسا کر ہی نہیں سکے۔ مغرب نے مختلف شعبوں کا نظام تخلیق کر کے کامیابی سے نافذ کر رکھا ہے،ہم کیا اس کی کاپی بھی نہیں بنا سکتے؟ جنگ عظیم کے بعد پورے یورپ کا نیا جنم ہوا۔ سبھی ملکوںنے اپنے اپنے حصے کے ٹکڑے کو عظیم خطہ زمین بنانے کی ٹھانی اور اکثر ممالک اس میں کامیاب رہے۔ سکینڈی نیویا کے ممالک نے تو فلاحی ریاست کا اصل تصور دنیا کے سامنے رکھا اور پابندی بھی نہ لگائی کہ کوئی ان کی تقلید نہیں کر سکتا۔ پچھلے دنوں ناروے جانے کا اتفاق ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ نظام خود کار طریقے سے چل رہا ہے، گمان ہوتا ہے کہ انہیں چلانے والا کوئی ہے ہی نہیں ۔بس نظام بنا دیا گیا ہے اور وہ چل رہا ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے۔قانون ہے اور نافذ کرنے والے بھی اوروہ اتنی طاقت کے ساتھ اپنا وجود رکھتے ہیں کہ قانون کی خلاف ورزی کسی کے دماغ میں خیال بن کر بھی نہیں آتی۔ باقی چیزوں کو تو چھوڑیے ،آپ صرف پارکنگ کے نظام کو ہی دیکھیں توبے شمار مسائل کا حل اس ایک نظام میں پوشیدہ نظر آئے گا۔ امریکہ ،برطانیہ، یورپ یہاں تک کہ ترکی اور سینٹرل ایشیا کے کئی ملکوں میں بھی ایک بات ضرور آپ کے مشاہدے میں آئی ہو گی کہ چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر بسیں ، ٹرام ، ٹیکسی اور کاریں بیک وقت چلتی ہیں مگر کہیں بھی ٹریفک جام دکھائی نہیں دیتا۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ کہیں بھی منہ اٹھا کر پارکنگ نہیں کر سکتے۔پارکنگ صرف وہیں ہو سکتی ہے جہاں جگہ مختص ہے۔کاروباری مراکز ہوں، شاپنگ سینٹرز ہوں یا گھریلو علاقے،جو جگہ گاڑی کھڑی کرنے کے لیے مختص نہیں ہے وہاں گاڑی کھڑی نہیں ہو سکتی ۔ مخصوص جگہوں پر بھی گاڑی کھڑی کرنے کے بعدسب سے پہلے وہاں نصب مشین کے پاس جا کر آپ اپنے کارڈ کے ذریعے ادائیگی کریں گے اور تبھی اپنے کام سے جائیں گے۔ ایسا نہیں کریں گے تو واپسی پہ جرمانے کا ٹکٹ آپ کی گاڑی پر آویزاں ہو گا اور یہ جرمانہ اتنا بھاری ہو گا کہ آپ دوبارہ ایسی غلطی کرنے کی بھول نہیں کریں گے۔ یہ عذر قابل قبول نہیں ہے کہ آپ کو بس دو ہی منٹ کے لیے تو جانا تھا۔ اوسلو سے ذرا فاصلے پر ایک پہاڑی علاقے میں ہمیں ایک پاکستانی بزنس مین کے گھر کھانے پر جانے کا موقع ملا۔ ہمارے میزبان نے یہ انتظام بھی کرنا تھا کہ ہماری گاڑیاں کہاں پارک ہوں گی۔ میزبان کے گھر کے باہر احاطے میں صرف دو گاڑیاں کھڑی ہو سکتی تھیں ، اس سے زیادہ کی اجازت نہ تھی۔ باقی مہمانوں کی گاڑیوں کو سات منٹ کی ڈرائیو پر ایک پارکنگ میں پارک کروایا گیا اور دو گاڑیوں کی مدد سے مہمانوں کو باری باری رہائش گا ہ پہنچایا گیا۔رہائش گاہ پہنچ کر میں نے اندازہ لگایا کہ دو مزید گاڑیاں بڑی آسانی سے دائیں بائیں ایڈجسٹ کی جا سکتی تھیں ، مگر اجازت نہیں تھی تو بس نہیں تھی۔ میرے ذہن میں یہ سوال بھی آیا کہ رات کے دس بجے ہیں برف باری ہو رہی ہے ، ایسے میں کون آ کے دیکھے گا کہ اس گھر کے باہر دو اضافی گاڑیاں کھڑی ہیں ۔ مگر یہ سوال صرف میرے ہی ذہن میں آیا کہ ہم جگہ جگہ قانون کو دھوکہ دینے کی راہ نکالنے کے عادی ہیں ۔وہاں مقیم لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا نہیں ہوا ، انہیں تو اس لیے اس کی پاسداری کرنی تھی کہ قانون ہے تو بس قانون ہے۔ ایک روز ہمیں اوسلو سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ایک تاریخی گائوں’’ فیڈرک ستاڈ ‘‘ جانے کا موقع ملا۔یہ چارسو سال پرانا گائوں تھا۔ جسے سیاحوں کے لیے محفوظ کر دیا گیا ہے ،مگر کچھ لوگ اب بھی یہاں رہتے ہیں ۔سردیوں میں چونکہ یہاں سیاح نہ ہونے کے برابر آتے ہیں اس لیے جس روز ہم وہاں گئے ، مقامی لوگوں کے سوا کوئی وہاں موجود نہیں تھا۔ وسیع پارکنگ میں چند گاڑیاں کھڑی تھیں ،باقی جگہ بالکل خالی تھی۔ ہمارے ایک دوست نے اپنی گاڑی کی نمبر پلیٹ ’’Shah Gee‘‘ کے نام سے حاصل کر رکھی ہے جو عین قانونی عمل ہے۔گاڑی پارک کرنے کے بعد انہوں نے معمول کے مطابق مشین میں اندارج کرکے پارکنگ فیس ادا کی اور ہمارے ساتھ پیدل چلتے ہوئے تاریخی گلیوں میں ہو لیے۔ شاہ جی کا تعلق گجرات سے ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک پولیس کی گاڑی گھومتی ہوئی ہماری جانب آ نکلی اور قریب آ کر رک گئی۔ گاڑی سول کپڑوں میں ملبوس کھاریاں کا ایک نوجوان چلا رہا تھا جو بطور ملازم پارکنگ کے نظام کی دیکھ بھال کی ضمن میں مقامی انتظامیہ کا حصہ تھا۔تعارف ہوا تو خوب گپ شپ ہوئی، کھاریاں اور گجرات کے قریبی علاقوں سے ہونے کے باعث کچھ تعلق بھی نکلا آیا، گپ شپ کے بعد اس نے بتایا کہ شاہ جی آپ کی گاڑی کی نمبر پلیٹ کو میرا سسٹم ریڈ نہیں کر پا رہا جس سے اندازہ نہیں ہوتا کہ آپ نے پارکنگ فیس ادا کی ہے یا نہیں ۔ شاہ جی نے بتایا کہ ہاں ایک بار پہلے بھی انہیں اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کے حل کے لیے انہیں شاید ہیڈ آفس سے رجوع کرنا پڑے گا۔ کھاریاں کے نوجوان ملازم نے بتایا کہ یہ آپ کو پہلے کر لینا چاہیے تھا۔اب آپ کو جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ اب آپ سوچیے کھاریاں سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے گجرات کے ایک ہم وطن کوسات سو کرون کا جرمانہ کر دیا جو تقریبا سولہ ہزار روپے پاکستانی بنتے ہیں ۔ اور یہ جرمانہ اس کے باوجود کیا گیا کہ انہوں نے پارکنگ فیس قانون کے مطابق ادا کر دی تھی مگر غفلت ان سے یہ ہوئی تھی کہ ان کی گاڑی ہر جگہ سسٹم میں ظاہر نہیں ہو رہی تھی۔اب آپ سوچیے علاقہ ،زبان،وطن سب کچھ ایک مگر جرمانے سے چھوٹ نہ ملی۔ پارکنگ کے اس نظام پر سختی سے عمل درآمد کے نتیجے میں ٹریفک جام کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے ہاں جس کا جہاں جی چاہے گاڑی کھڑی کرتا ہے اور اچھی خاصی چوڑی سڑکیں بلاک ہو کے رہ جاتی ہیں۔ اب بتائیے ایسا ایک نظام اسلام آباد ، لاہور اور کراچی جیسے شہروں کے لیے بنا دینا کتنا مشکل کام ہے۔ ناروے میں رہنے والے اگر اس قانون پر عملد درآمد کرنے کے لیے ذرا سی زحمت کرتے ہیں تو اس سے خود انہی کو ٹریفک جام جیسی اذیت سے نجات بھی تو ملتی ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ وہی ہم جو یہاں قانون توڑنے پر مصر رہتے ہیں وہاں جا کر اچھے بچے کیسے بن جاتے ہیں ۔ ٭٭٭٭٭