آپ ٹی وی پروگراموں کو دیکھیں آپ ڈیجیٹل میڈیا پر تبصرے سنیں۔آپ ان کے اینکرز کا جوش دیکھیں ان پروگراموں میں شریک سیاست کاروں اور ماہرین کا اسلوب دیکھیں ایک دوسرے کو جھوٹا اور دغا باز ثابت کرنے کے لئے دست و گریبان ہونا دیکھیں ۔آپ سوشل میڈیا پر ہر ایک کو اپنی دانشوری جھاڑتے دیکھیں۔ پھکڑ پن کی حدوں کو چھوتے دیکھیں۔ اپنی خواہشات کے مطابق جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرتے دیکھیں۔ کبھی حکومت کو برا بھلا کہتے ہیں کبھی امریکہ کو گالیاں دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہماری زندگیوں کا مقصد صرف تماشہ ہے ۔ ہم نفسیاتی طور پر ایک بھنور میں پھنس گئے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اذیت پسند ہو چکا ہے ہم دوسرے کو اذیت دے کر اس کی بے عزتی کر کے خوش ہوتے ہیں۔ ہم دوچار پانچ لوگوں کی ہلاکت کو کوئی خبر ہی نہیں سمجھتے۔ ہم ان خبروں پر بحیثیت نیوز مین نہ چونکتے ہیں اور نہ ہی حیران و پریشان ہوتے ہیں۔ ہم لوگ قتل و غارت گری‘ گھیرائو جلائو آنسو گیس پتھر اور بم دھماکوں کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہم حادثے کے طور پر تھوڑی دیر بعد اس کی تمام جزئیات بھول جاتے ہیں اور اگلے ہی دن حادثے والی جگہ پر کھڑے ہو کر مصالحے والی چاٹ کھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ سنگ دلی خوفناک نفسیاتی مرض کی نشاندہی کرتی ہے۔ ہم غیر ارادی اور غیر محسوس طریقے سے پرتشدد کارروائیوں پر اس طرح کا ردعمل ظاہر نہیں کرتے جو نارمل طور پر کرنا چاہیے جو رویہ ہم نے اختیار کر رکھا ہے اس طرح کے رویے کی کسی مہذب معاشرے میں گنجائش نہیں ہوتی۔ ہمیں افسوس سے ماننا پڑے گا ہمارے لوگ اس غیر مہذبانہ انداز کے عادی ہو چکے ہیں ۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کے کاریگروں نے ایسی بھنگ پلا دی ہے جس کے سبب عام لوگ اسمارٹ فون ہاتھ میں تھامے اپنی نظروں کو اس کی اسکرین سے ہٹانے کی مہلت نہیں دیتے۔ مار دھاڑ سے بھر پور اسکرین نے حقیقی اور اعتدال پسندی کے انسانی جذبات کو نگل لیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مارا ماری کے عادی لوگوں کومہذبانہ اور شائستہ بات پھیکی لگ رہی ہے لوگ ایک دوسرے کی بے عزتی‘ لڑائی اچکتے اچکتے غیر مہذبانہ جملوں اور الفاظ سے انجوائے کرنے کے لئے ساری رات سکرین کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ ایک صاحب نے تو ایک انتہائی غیر مہذب لفظ استعمال کر کے اس کو اتنا عام کر دیا ہے جیسے یہ شائستگی اور تہذیب سے دھلا کوئی لفظ ہو۔لائیکس اور ویوز کے چکر میں حقائق کو توڑ مروڑ کر بیان کرنے والے وی لاگرز نے خبر کی کریڈیبلیٹی کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہے۔ اصول یہ ہے کہ اگر آپ کوئی خبر دینا چاہتے ہیں ضرور دیں لیکن اس کی صداقت کو ضرور چیک کر لیں، اگر آپ کسی بات کا کوئی سرا تلاش کر لیں تو آپ کے پاس اس کے لئے دلیل بھی آ جائے گی۔ اگر واقعی آپ وی لاگر بننا چاہتے ہیں اچھی رپورٹنگ میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے جستجو کریں محنت کریں۔ اپنی بات تھوپنے کی کوشش نہ کریں اس میں حقیقت اور سچائی کا سرا ضرور تلاش کریں۔ یہ سب کچھ آپ کی ساکھ اور کریڈیبلیٹی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ میڈیا کیا ہے اور میڈیا سے وابستہ لوگوں کی ذمہ داری کیا ہے۔ یہ ہمارے میڈیا کے سامنے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟ میڈیا صرف خبر دینے کی مشین نہیں اور نہ ہی خبر دینے کے بعد اس کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ میڈیا ایک تبلیغی عمل ایک درس گاہ اور ایک تربیتی ادارہ بھی ہے ۔میڈیا اور ہم صحافیوں کو تسلیم کرنا پڑے گا قدرت نے ہمیں لوگوں کے مزاج پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے نوازا ہے اور ہمارے چند لمحوں کی غلطی قوم کے مزاج میں میلوں لمبا بگاڑ پیدا کر دیتی ہے۔ ہم ایک لمحے کے لئے لوگوں کو تالی بجانے یا قہقہہ لگانے پر تیار کر لیتے ہیں لیکن یہ قہقہہ اور یہ تالی بعدازاں پبلک ڈیمانڈ بن جاتی ہے اور اس کے بعد پورے ملک کا ٹیسٹ اور مزاج بدل جاتا ہے۔ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ کیا ہم تمام تر سائنسی ایجادات اور ابلاغ کے تیز تر اور جدید ترین نظام کے باوجود معاشرے کی طرف سے اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں سے صحیح طور پر عہدہ براہ ہو رہے ہیں لیکن ہم کمیونی کیشن کے ہر ذریعے میں سنسنی خیزی اور تھرل پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ذرا اس بات پر غور کیجیے کہ ہماری فلم انڈسٹری کیوں زوال پذیر ہوئی۔ اس کی بڑی وجہ بڑھک اور گنڈاسا تھا۔70ء کی دہائی تک پاکستان کی فلمیں تمام سینما گھروں میں دیکھی جاتی تھیں پوری فیملی ایک ساتھ بیٹھ کر یہ فلمیں دیکھتی تھی اور اس وقت یہ فلم سازوں سے لے کر اسکرپٹ رائٹرز اور موسیقاروں سے لے کر گلوکاروں اور گیت کاروں تک دنیا کے بہترین تخلیق کاروں کے سبب تھا۔لیکن پھر ایک دن گنڈاسا سکرین پر لہرایا اور بڑھک سنائی دی پبلک نے اٹھ کر تالی بجائی اور اس کے بعد تمام انڈسٹری گنڈاسوں اور بڑھکوں کی طرف شفٹ ہو گئی اور اس کا کیا نتیجہ نکلا ہمارے 70سے 85فیصد سینما بند ہو گئے۔ ان کی جگہ پلازے اور مال بن گئے۔ اداکار تھیٹروں میں فحش فقروںسے روزی کما رہے ہیں۔ جبکہ اداکاری‘ صداکاری اور کہانی کاری گالی بن چکی ہے مجھے یقین ہے کہ اگر ہم نے بھی آج اگر میڈیا کو نہ سنبھالا ہم نے بھی اگر اخلاقی اقدار کا خیال نہ رکھا اگر ہم نے بھی میڈیا کو اچھے ٹیسٹ اچھے اخلاق اور ناظرین اور قارئین کی فکر سازی کا ذریعہ نہ بنایاتو خدشہ ہے کہ ہمارا حشر بھی فلم انڈسٹری جیسا ہو گا ۔ فلم انڈسٹری کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے نہ جانے کتنے جتن کئے جا رہے ہیں۔ فلموں کو بارہ مصالحے کی چاٹ بنانے کی تگ و دو ہو رہی ہے بات پھر بھی نہیں بن رہی۔ ٹی وی ڈرامے میں بھی ہلچل اور ہیجان برپا ہے ،فیملی یونٹ کے پرخچے اڑائے جا رہے ہیں رشتوں میں اور خصوصاً مخصوص رشتوں میں جس طرح رنجشیں اور عداوتیں دکھائی جا رہی ہیں۔ سسپنس اور تھرل کے نام پر ٹی وی ڈرامہ انٹرٹینمنٹ ضرور فراہم کر رہا ہو گا لیکن اس میں خاندانی اقدار‘ معاشرتی رکھ رکھائو‘ رواداری ‘ باہم احترام اور خاندانی روایات کو جس طرح ملیا میٹ کیا جا رہا ہے ٹی وی سکرین چیخ چیخ کر اس کا اعلان کر رہی ہیں۔ انسان کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ اپنی اذیت پسندی کو بھانپ لیتا ہے اور اس کے بعد ان تمام چیزوں سے اور لوگوں سے پرہیز شروع کر دیتا ہے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہم پر اچھے اخلاق کی تبلیغ اور عوام کی کردار سازی کا فرض بھی عائد ہے اور اس کے ہمیں اپنے قلم اور زبان سے کام لینا چاہیے رہا سوشل میڈیا تو اسے جھوٹ سنسنی خیزی اور پھکڑ پن سے پرہیز کرنا چاہیے یہ دو دھاری تلوار ہے یہ بہت بڑا ہتھیار ہے۔ اگر میڈیا کے لوگ اب بھی نہ سنبھلے ا تو قوم کے زوال میں ہمارا بھی حصہ ہو گا۔