ذکر کسی اور زمانے کا تھا مجھے نعیم صدیقی یاد آ گئے۔کل ان کا یو م وفات تھا اور وہ بے حساب یاد آئے۔ ’’ محسن انسانیت ؐ‘‘ کا مصنف انقلابی شاعر اور مضطرب نعیم صدیقی کو اس دنیا سے گئے کئی برس بیت گئے ہیں۔ انہوں نے سوشلزم کے خلاف نظمیں لکھیں تو ہمارے ’’ دانش فروشوں‘‘ کے ماتھے پر بل پڑتے چلے گئے۔ان کے خیال میں نعیم صدیقی شاعر تھے ہی نہیں۔سوشلزم اس صدی کا سب سے بڑا فراڈ تھا۔ انسانوں کے لیے عذاب کی صورت جلوہ گر ہوا اور بستیاں راکھ کا ڈھیر کرتا‘انسانوں کو مشین بناتا جذبات احساسات اور آرزئوں کو کچلتا چلا گیا۔ انسانوں کو خوشیوں اور بہترین مستقبل کا سہانا خواب دکھانے والے اس نظریے کو دنیا سے ناکام لوٹنے میں صرف ستر برس لگے ۔ اس کے پیرو کاروں کو اسے حق ثابت کرنے کے لیے بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔بالخصوص اسلامی ممالک میں اسے اسلامی سوشلزم ثابت کرنے کے لیے سوشلسٹوں کو بہت قربانی دینا پڑی ۔ اس نظریاتی جنگ نے پوری دنیا میں کھلبلی مچا رکھی تھی ۔ ۱۹۷۹ء تک کریملن اس نظریے کا بڑا مرکز تھا جب کہ دسمبر۱۹۴۹ء میں مشرقی جرمنی سوشلزم کے حامیوں کا دوسرا بڑا مرکز بن گیا ۔ آج کریملن اوربرلن دونوں عبرت کا نشان ہیں۔۱۹۷۹ء میں روس افغانیوں کی غیرت دین کا علاج کرنے کریملن سے نکلا اور کابل کی گلیوں میں خوار ہوا ۔ اس کھلی جارحیت کے سامنے تیرہ لاکھ افغانیوں کے لہو کا سیلاب بہنے لگا ۔ایک طویل مگر صبر آزما جدوجہد کے بعد کریمن کے در دیوار میں دراڑیں پڑنے لگیں ۔ دنیا کے ہر با ضمیر ملک نے اس جارحیت کے سامنے سینہ سپر ہونے کا عزم کر لیا‘ چنانچہ افغانیوں کے عزم اور جدوجہد نے برلن پر بھی اثرات مرتب کیے۔ ۹ نومبر ۱۹۸۹ء وہ پہلا دن تھا جب کیمونسٹ ہنگری میں ہزاروں انسان پہلی بار احتجاج کی خاطر سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ وہ لاوا تھا جو نصف صدی سے دلوں میںپک رہا تھا۔ انسانی خدائی اور جبر کے اس فلسفے کو پہلی بار اپنی ہی سرزمین پر للکارا گیا تو ستر سالہ بوڑھے فرسودہ اور غیر فطری نظام کی چولیں ہل کر رہ گئیں۔خود کمیونسٹ یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ آخر ہوا کیا ہے؟۱۲ نومبر ۱۹۸۹ء کو دیوار برلن پر حملہ ہوا اور ۲۰ دسمبر تک اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔ کیمونزم کی دھول اڑگئی ۔اس نظام کی برکات کیا تھیں ؟ اس سے کن کن ملکوں اور کن کن دانشوروں نے فیض پایا۔ بادشاہی ‘ سرمایہ داری ‘ سوشلزم ‘ سب کو دنیا نے دیکھا ‘ پرکھا ۔ آج دنیا پھر اس کشمکش میںمبتلا ہے ۔نظام ہائے قدیم و جدید پیوند خاک ہوئے ۔ دنیا نظام کا ہر رنگ دیکھ چکی ہے‘ہر نظام کو آزما چکی ‘سوائے اسلام کے آفاقی اور ابدی نظام کے ۔ نعیم صدیقی ؒکی شاعری کا زمانہ یہی ہے‘ جب اسلام اور کمیونزم کے درمیان سرد و گرم محاذ کے معرکے جاری تھے۔افغان جہاد کے زمانے میں ان کی انقلابی اور رزمیہ شاعری عوام کے دلوں کو گرماتی تھی ۔ کمیونزم کے حاشیہ بردار روس کی جارحیت کے حق میں ربط اللسان رہتے۔ نعیم صدیقی کی وہ نظم بالخصوص ہر خاص و عام کے لبوں پر آ گئی جس میں روسی ستم کی طویل تاریخ چند شعروں میں ڈھل گئی۔ یہ نان دیں اور اس کے بدلے میں آن ایمان جان لے لیں یہ چڑھ کے جس قوم پر بھی دوڑیں اسی سے اس کے جوان لے لیں جو لکھے اس کے قلم کو توڑیں جو بولے اس سے زبان لے لیں بہار تازہ ابھی نہ آنا ابھی میرا خون بہہ رہا ہے روسی جبر سے صف آرا وہ شاعر ادیب اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ ان میں کچھ بچ گئے جن کے قلم زنگ آلود اور زبانیں گنگ ہو گئیں ۔چمن اسلام پر بہاریں آئیں اور پھر خزائیں چھا گئیں ۔ کیمونزم گیا سرمایہ داری ‘ بادشاہت بھی نہیں رہے گی ‘ لیکن کاش آج نعیم صدیقی زندہ ہوتے ۔وہ تو ۲۵ دسمبر ۲۰۰۲ء کوفوت ہوئے تھے اور اس کے معاً بعد افغانستان پھر زیر عتاب آ گیا۔ افغانوں کی غیرت دین کا علاج پھر سے شروع ہوا۔امت محمد عربیؐ پھر سے عالمی ٹھیکے داروں کی زد میں ہے۔ہر جگہ ‘ ہر کہیں! تاریخ نے پوچھا‘ اے لوگو!یہ دنیا کس کی دنیا ہے شاہی نے کہا یہ میری ہے اور دنیا نے یہ مان لیا پھر تخت بچھے ‘ ایوان سجے ‘ گھڑیال بجے ‘ انسان مرے تلوار چلی اور خون بہے ‘ انسان لڑے ‘ انسان مرے دنیا نے بالآخر شاہی کو پہچان لیاپہچان لیا تاریخ نے پوچھا پھر لوگو یہ دنیا کس کی دنیا ہے دولت نے کہا یہ میری ہے اور دنیا نے یہ مان لیا پھر بنک کھلے ‘ بازار جمے ‘ بازار جمے بیو پار بڑھے انسان لٹے ‘ انسان بکے ‘ آرام اڑے سب چیخ اٹھے دنیا نے بالآخر دولت کو پہچان لیاپہچان لیا تاریخ نے پوچھا پھر لوگو یہ دنیا کس کی دنیا ہے محنت نے کہا یہ میری ہے اور دنیا نے یہ مان لیا پھر روح دبی ‘پھر پیٹ بڑھے افکار بڑھے کردار گرے ایمان لٹے ‘اخلاق جلے ‘ انسان نرے حیوان بنے دنیا نے بالآخر محنت کو پہچان لیا پہچان لیا تاریخ نے پوچھا پھر لوگو یہ دنیا کس کی دنیا ہے مومن نے کہا اﷲ کی ہے اور دنیا نے یہ مان لیا پھر قلب و نظر کی صبح ہوئی ‘اک نورکی لے سی پھوٹ بہی اک اک خودی کی آنکھ کھلی ‘فطرت کی صدا پھر گونج اٹھی دنیا نے بالآخر آقا کو پہچان لیا پہچان لیا