گزشتہ اتوار یعنی 31 مارچ کو موسم بہار کے سورج کی خوشگوار تپش کا مزہ لیتے ہوئے ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ کے ایک پولنگ بوتھ کے باہر قطار میں کھڑے ایک ریٹائرڈ بزرگ مرات اوکتائے بتا رہے تھے کہ انہوں نے 2001سے لیکر اب تک تقریباً اٹھارہ بار صدر رجب طیب اردوان کی قیادت میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی یعنی آق پارتی کو وفاداری کے ساتھ ووٹ دیے ہیں۔ مگر اس بار ان کا ارادہ کچھ اور ہے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اوکتے بے کی یہ آواز پورے ترکیہ کی آواز بن کر رات کو ووٹوں کی گنتی کے وقت ایک ایسا ارتعاش پیدا کرے گی جو شاید ملک کی ایک نئی سمت اور لیڈرشپ کا تعین کرے گی۔ انقرہ میں وزارت اطلاعات کے قائم کردہ پریس روم میں جب رات گئے نتائج آنا شروع ہوگئے تو تمام تر انتخابی جائزوں کے برعکس ، وہ اقتدار پر اردوان کی دیرینہ گرفت کے کمزور ہونے کا اشارہ کر رہے تھے۔ ویسے تو دنیا میں کہیں بھی بلدیاتی انتخابات میں دلچسپی کا کوئی عنصر نہیں ہوتا ہے۔ مگر ترکیہ میں جہاں ریاستی انتخابات نہیں ہوتے ہیں، یہ صدر اور پارلیمنٹ کے بعد جمہوری نظام کے اہم ستون ہیں۔ اسی لئے سیاسی اہمیت کے لحاظ سے استنبول شہر کے میئر کا موازنہ بھارت کے اتر پردیش یا پاکستان کے پنجاب صوبوں کے وزراء اعلیٰ سے کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے اکثر وزراء شہروں کے میئر بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس بلدیاتی نظام میں مقامی مختار یعنی کونسلر، سٹی کونسل یا شہری پارلیمنٹ کے ممبران، ضلعی میئر اور پھر شہر کے میئر براہ راست منتخب ہوتے ہیں۔ یعنی ایک ووٹر کو بیک وقت چار ووٹ دینے ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں بھی اسی طرح کا نظم ہوتا ہے۔ یہ ادارے مقامی ٹیکسوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور ٹرانسپورٹ، زمین کا استعمال، فضلہ جمع کرنے، پانی، گیس اور پارکس، سڑکوں اور دیگر تفریحی سہولیات جیسی خدمات کے ذمہ دار ہیں۔ مختار کا اپنے علاقے میں خاصا اثر و رسوخ ہوتا ہے اور اس کا باضابطہ دفتراور عملہ ہوتا ہے۔ خیر ان بلدیاتی انتخابات میں صدر اردوان کی آق پارٹی کو چونکا دینے والی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی حریف ترکیہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتا ترک کی قائم کردہ سیکولر ریپبلیکن پیپلز پارٹی یعنی سی ایچ پی نے بلدیاتی انتخابات میں تمام اہم شہری علاقوں پر قبضہ جما لیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بس سال بھر قبل صدارتی انتخابات کے وقت سی ایچ پی کو محض 22فیصد ووٹ پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ مگر اس بار اس نے 37.74فیصد ووٹ لیکر 14 میٹروپولیٹن شہروں، 21 صوبوں اور 337 ضلعی کونسلوں میں فتح کے جھنڈے گاڑے۔ اسکے د و بڑے لیڈر امام اولو 51.1 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوبارہ استنبول کے میئر کے طور پر منتخب ہوئے۔دارالحکومت انقرہ میں بھی اسکے امیدوار اور موجودہ میئر منصور یاواس نے 60.4 فیصد ووٹ حاصل کرکے دوبارہ عہدہ حاصل کیا۔ پچھلے سال سی ایچ پی کئی پارٹیوں کے ساتھ ملکر ملی اتحاد کے زیر سایہ اردوان کے خلاف صدارتی انتخابات لڑ رہی تھی، مگر یہ اتحاد اسکی ہار کے بعد پارہ پارہ ہوگیا تھا۔سی ایچ پی میں بھی لیڈرشپ کی جنگ شروع ہوگئی تھی، اور اسکے صدر کمال کلیچ داراولو کومستعفی ہوکر عہدہ اوزگور اوزال کیلئے خالی کرنا پڑا۔ یہ بلدیاتی انتخاب اس پارٹی نے اپنے بل بوتے پر لڑا۔ اس کے لیڈروں، نہ انتخابی پنڈتوں کو امید تھی کہ وہ اضافی 15فیصد ووٹ لینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ ترکیہ کے نقشے پر نظر ڈالیں، تو یہ چار خطوں میں بٹا ہوا ہے۔ بحیرہ روم کے ساحل سے لگا ہوا اکا دانز خطہ، تھریس یا ٹریکیا خطہ ، جس میں استنبول ، گیلی پولی یا چنا کالے کے علاقے آتے ہیں، بحیرہ اسود کے ساحل پر آباد کارادانز خطہ اور پھر اناطولیہ یا ایشیائے کوچک کا علاقہ، جس میں انقرہ سمیت شام اور عراق کی سرحد تک کے ترکیہ کے مشرقی علاقے شامل ہیں۔ سی ایچ پی پچھلی چار دہائیوں سے صرف کارادانز علاقہ تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔مگر اس بار اس نے وسطی اناطولیہ کے وسیع و عریض علاقوں کو فتح کرلیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرقی اناطولیہ کے جن علاقوں میں پچھلے سال زلزلہ نے تباہی مچا دی تھی اور جہاں لوگ ابھی بھی خیموں اور کینٹینروں میں آباد ہیں، آق پارٹی نے کامیابی حاصل کرلی۔جس سے یہی لگتا ہے کہ یہ متاثرہ لوگ حکومت کی باز آبادکاری کے عمل سے مطمئن ہیں۔ رائے عامہ کے جائزے بتا رہے تھے کہ آق پارٹی کو ان ہی علاقوں سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، مگر اس علاقے اور بحیرہ اسود کے ساحلی علاقہ کارادانز اور دیہی علاقوں میں اچھی کارکردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمران آق پارٹی کسی حد تک وقار بچانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔جس کی وجہ سے اس نے 35.49فیصدووٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ 2019کے بلدیاتی انتخابات میں آق پارٹی نے 42.87فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ تھریس جس میں استنبول اور اسکے متصل علاقے آتے ہیں اور کارادانز جس میں ازمیر، انطالیہ جیسے خوبصورت شہر آتے ہیں ، ترکیہ کی اشرافیہ کے مسکن ہیں۔ ان علاقوں کے باسی اناطولیہ اور کارادانز کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہ علاقے دو دہائی قبل تک خاصے پسماندہ ہوتے تھے۔ ایردوان کی آق پارٹی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ترقی اور بنیادی ڈھانچہ کے لحاظ سے اس نے ان علاقوں کو اشرافیہ کے علاقوں کے مقابل کھڑا کر دیا۔ ان علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے ، لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ کسی بھی اشاریہ میں استبول یا ازمیر سے کم ہیں۔ یہی ایک اہم وجہ ہے کہ پچھلی د و دہائیوں سے اردوان یکے بعد دیگر انتخابات جیت رہے تھے۔ ترکیہ کے امور کے ماہر اور ترکی کے نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کے سابق ایڈیٹر عبدالحمید چوہان کے مطابق سی ایچ پی نے پچھلی بار 1977میں وزیر اعظم بلند ایجاوت کی قیادت میں 41.38فیصد ووٹ حاصل کئے تھے اور اسکے بعد اسکے ووٹوں کا تناسب گھٹتا گیا اور پچھلے بیس انتخابات میں یہ 22سے 25فیصد کے آس پاس ہی رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پارٹی کا 15فیصد اضافی ووٹ حاصل کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ترکیہ کی سیاست ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلسل اپوزیشن میں رہنے کی وجہ سے سی ایچ پی میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں۔ یہ پارٹی اب کسی بھی طرح کمال اتا ترک یا ان کے دست راست عصمت انونو کے سخت گیر سیکولرازم یا بائیں بازو کے نظریات پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ اب یہ ایک طرح کی سینٹرسٹ پارٹی بن گئی ہیں، جس میں سبھی نظریات کو پناہ ملتی ہے۔فی الوقت اسکے دونوں بڑے لیڈر استنبول کے میئراکرام امام اولو اور انقرہ کے میئرمنصور یاواش دائیں بازو کے نظریات کے حامل رہے ہیں۔موجودہ انتخابی مہم کے دوران منصور یاواش کو انقرہ کی کسی نہ کسی مسجد میں نمازیوں سے ملتے ہوئے اور ان کو ووٹ دینے کی یاد دہانی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔ (جاری ہے)