معاشرے کی ترقی کے لیے تعلیم لازمی ہے۔تعلیم ایک آدمی کو انسان بناتی ہے۔اس کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہے۔جاہل سے ممتاز کرتی ہے۔اسی بنا پر دنیا کا کوئی بھی معاشرہ تعلیم سے انکاری نہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیم سے فاصلے بڑھائے جا رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو تعلیمی پسماندگی کی وجوہات میںکرپشن اور بد عنوانی سر فہرست ہے۔زندگی کا مقصد کائنات کا اصل شعور حاصل کر کے بے سہارا انسانوں کی زندگی میں حوصلہ پیدا کرنا اور مرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ لانا ہے۔یہ سب تعلیم کی بدولت ہو سکتا ہے۔جس طرح خالص دودھ اور شہد کی ایک پہچان یہ ہے کہ یہ کسی پاکستانی تاجرکے ہاں نہیں ملتی۔ایسے ہی تعلیم بھی سرکاری سکولزمیںمیسر نہیں ۔دیہی سرکاری سکولز میں اساتذہ آتے نہ ہی طلبا ۔ اہل مغرب کے ترقی یافتہ ہونے کا راز فقط تعلیم کے شعبے کی بہتری میں پنہاں ہے ۔ایک دور تھا جب علم کی دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی تھی ۔مگر آہستہ آہستہ اقتدار کے نشے نے سب بھسم کر ڈالا۔ایک رپورٹ کے مطابق عالمی بینک پاکستان کوگزشتہ 20 سال کے دوران شعبہ تعلیم کی بہتری کیلئے 4 کھرب 59 ارب 79 کروڑ کی خطیر رقم دے چکا ہے۔ لیکن شعبہ تعلیم میں بہتری کے آثار کہیں نظر نہ آ سکے بلکہ الٹا پاکستان تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن گیا ۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق ہر سال ملک بھر میں ایک کروڑ 7 لاکھ لڑکے اور 86 لاکھ لڑکیاں پرائمری سکولوں میں داخلہ لیتی ہیں تا ہم مڈل لیول تک پہنچتے پہنچتے سکولوں میں جانے والے لڑکوں کی تعداد صرف 36 لاکھ اور لڑکیوں کی تعداد 28 لاکھ رہ جاتی ہے۔ پائیڈ کی رپورٹ کے مطابق: پاکستان کے ہر 4 میں سے ایک بچے کو کبھی بھی سکول جانا نصیب نہیں ہوتا جبکہ 7 فیصد بچے داخلہ لینے کے بعد معاشی حالات کے باعث سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ یونیسف کے مطابق: پاکستان میں 5 سے 9 سال کی عمر کے 50 لاکھ بچے سکولوں میں حصول تعلیم سے محروم ہیں جبکہ 10 سے 14 سال کے ایک کروڑ 14 لاکھ بچے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں سماجی و معاشی مسائل بچوں کے سکولوں میں داخلے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں جہاں 58 فیصد بچے غربت کے باعث تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ بلوچستان میں صنفی امتیاز کی وجہ سے 78 فیصد بچیاں سکولوں میں داخلے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ اگر صوبوں کی سطح پر تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو خیبرپختونخوا میں 46 لاکھ 77 ہزار بچے سکولوں سے باہر ہیں ۔بلوچستان میں 31 لاکھ 30 ہزار بچے تعلیم سے محروم ہیں، سب سے زیادہ بلوچستان میں 65 فی صد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ سندھ میں 76 لاکھ 30 ہزار بچے اسکول نہیں جا رہے۔ پنجاب میں ایک کروڑ 17 لاکھ 30 ہزار بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ جب کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 80 ہزار بچے ایسے ہیں، جو سکول نہیں جا رہے۔اس تناسب سے بلوچستان میں 47فیصد ہے ۔سندھ میں 44فیصد ، خیبر پختونخوا میں 32فیصد ، پنجاب میں 24فیصد جبکہ اسلام آباد میں 10فیصد بچے تعلیم کے زیور سے محروم ہیں۔ تعلیم سے دوری نے ہمیں دیگر اقوام سے پیچھے دھکیل رکھا ہے ۔کیونکہ دولت سے کتابیں خریدی جا سکتی ہیں، علم نہیں۔ دولت سے اجسام خریدے جا سکتے ہیں، احساسات و جذبات نہیں۔آج بھی ایک جاہل اور عالم کے غزہ کے بارے میں احساسات میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔یاد رکھیں!حیات خود نہیں بنتی بلکہ بنائی جاتی ہے، چراغ خود نہیں جلتے جلائے جاتے ہیں۔اس لیے اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے تعلیم پر توجہ دیں تاکہ ہم دوسروں سے آگے نکل سکیں ۔خیبر پختونخواہ کی حکومت نے 10لاکھ بچوں کو سکولز لانے کا ہدف مقرر کیا ہے ۔دیگر صوبے بھی اس کی تقلید کریں۔مجھے کبھی خود وزٹ کاموقع میسر نہیں آیا مگر میرے انتہائی قابل اعتماددوست جناب نور الھدی نے مجھے غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے بارے میں کچھ معلومات دی ہیں۔ پاکستان بھر کے دیہاتوں میںاس ادارے کے 800 سے زائد سکول قائم ہیں ،جہاں کم وسیلہ خاندانوں کے تقریباً سوا لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ ان میں 48 ہزار کے قریب بچے ایسے ہیں جو یتیم کا مستحق ہیں۔ان بچوں کی مکمل تعلیمی کفالت بھی غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کر رہی ہے۔ تعلیمی کفالت کی مد میں یونیفارم ، کورس، اسٹیشنری وغیرہ ادارے کی جانب سے ہی مہیا کی جاتی ہے۔ دیہاتوں کے نظر انداز سپیشل بچوں کیلئے بھی ایک انکلوسو ایجوکیشن ماڈل غزالی فاؤنڈیشن کی کاوشوں میں شامل ہے۔ بے شمار خصوصی بچے تعلیم و بحالی کے مراحل سے گزر کر اب نارمل بچوں کے ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے نظر انداز ہندو بچوں کیلیے بھی الگ سکول قائم ہیں، جہاں سینکڑوں ہندو بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جہاں نیکیوں کا موسم بہار سجا ہوا ہے ، غزالی فاؤنڈیشن کو زکوۃ و صدقات دیں تاکہ علم کی شمع چلتی رہے۔محکمہ تعلیم نے بچوں کا سکولز سے باہر ہونا غربت، بے روزگاری، تعلیم کی آگاہی نہ ہونے کو بنیادی وجہ قرار دیاہے ۔مگر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ20 برسوں کے دوران شعبہ تعلیم کی بہتری کیلئے 4 کھرب 59 ارب 79 کروڑ کی خطیر رقم کہاں گئی؟یہ رقم غزالی فاؤنڈیشن جیسے اداروں کو ملی ہوتی تو آج پاکستان تعلیم نمبر ہوتا ۔