اپنے دس سالہ اعلیٰ تعلیمی دورانیے میں ہمیں دو ڈگریاں ہی نصیب ہو پائیں۔ تیسری اور آخری ڈگری کے راستے میں جال ہی ایسے بچھے تھے کہ سکت تھی نہ وقت۔ صحافتی دنیا میں آ ئے لیکن ،بقول شخصے ،اس رگڑے کے مرحلے سے صاف بچ گئے جس سے اس دنیا میں وارد ہونے والے نوجوانوں کو لگتا اور وہ زندگی بھر نہ صرف اسے بھول نہیں پالتے بلکہ موقع ملے تو بدلہ لینے پر بھی ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ وجہ وہ بار بار پڑھا "طریقہ تحقیق "تھا ، جو تمام جدید علوم کی بنیاد ہے اور جس میں ہم یکتا ہوچکے تھے۔ تجزیہ نگاری کی طرف آئے اور قومی سطح کے انگریزی اور اردو اخبارات میں خوب چھپے۔ معیشت ، سیاست اور خارجہ پالیسی کے دائرے میں گھومے۔ ا یک عرصہ تک ہم نہ تو اپنے آپ کو صحافی سمجھے اور نہ ہی صحافیوں نے ہمیں اپنی صفوں میں شامل کرنا مناسب سمجھا۔" نہ بھئی ،استاد بنانا اور دھکے کھانا پڑتے ہیں ،تجربے کی بھٹی سے گزر کر ہی سونا کندن بنتا ہے! " جب اس عمل سے گزرنے کا وقت تھا توہم یونیورسٹیوں میں قیام پذیر تھے اور اپنے تئیں خود استاد بن چکے تھے۔ صحافتی دنیا میں وہ گر سیکھ سکے جو اس رہ ِپرخطر میں کامیابی کے لیے ضروری ہیں۔ بارے رپورٹنگ کا موقع ملا۔ متعلقہ ایشو پر کچھ رپورٹیں پڑھیں ، چند سوال نکالے اور پھر انکے جوابات ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوئے۔ دلچسپی البتہ بنیادی حقوق کے تناظر میں ہونے والی آئین سازی ، پارٹی سیاست اور طرز حکمرانی میں رہی۔ اکثر پارلیمان جا نکلتے ، کمیٹی رومز میں گھسے رہتے اور آئین سازوں کی افسر شاہی کے سامنے بے بسی کا تماشا دیکھتے۔ ہمارے تعلیمی پس ِ منظر کا قصور سمجھیں یا پھر شریف النفسی، اسکینڈلز کے پیچھے کبھی نہ بھاگے اور نہ ہی ہم بریکنگ نیوز کے فلسفے کے قائل ہیں۔ صحافت کا مقصد اصلاح ہو تو ایسی خرافات کی طرف انسان مائل نہیں ہوتا۔ بارہا ڈاکٹریٹ کرنے کیلئے پر پھڑپھڑائے لیکن ایک تو طاقتِ پرواز کی کمی آڑے آئی دوسرے ہماری مادر علمی بھی نفسیاتی طور پر وہیں کھڑی ہے جہاں اسے ہم نے دہائیوں پہلے چھوڑا تھا۔ پرانے طلبا کو دوبارہ داخلہ دینے میں گریزاں، نئی ٹیکنالوجی سے دور، داخلے کا لمبا اور تھکا دینے والا مرحلہ، تحریری ٹیسٹ اور انٹرویو۔ دو دفعہ ان مرحلوں سے بھی گزرے لیکن پتہ چلا کہ داخلے "بوجوہ "منسوخ ہوگئے ہیں۔ اگر اس عمل سے گزر بھی جائیں تو بھاری بھرکم فیس اور ایک سال کا کورس ورک۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ریسرج پروپوزل پر سپر وائزر دستیاب ہو ،باہم مل کر تحقیقی پراجیکٹ بنائیں، رجسٹریشن ہو ، سال بھر خجل ہونے کی بجائے متعلقہ تحقیقی مواد ہی پڑھیں۔ ابھی تو کوئی دنیا تیاگ کر ہی اس کٹھن رستے پر جائے تو جائے ورنہ حالات ایسے نہیں کہ اپنے ہی ملک میں رہ کر کوئی تحقیقی کام کیا جائے۔ بالفرض، اگر اس بھٹی سے گزر کر سونا بھی بن جائیں تو بھی خاک۔ سماجی علوم کا مسئلہ تو اور بھی ٹیڑھا ہے۔ تحقیق کے لیے مسائل کا انبار ہے، لیکن نہ تو پالیسی سازی پر آپکی دریافت اثر انداز ہوسکتی ہے اور نہ ہی کسی تجربہ کرنے کے لیے کہیں سے سرمایہ دستیاب ہو پاتا ہے۔ ہمارے کئی دوست پی ایچ ڈی کے لیے باہر گئے ، منزل پائی ، پیسہ کمایا ، تعلقات بنائے۔ وطن کی محبت میں ، آنکھوں میں خواب سجائے واپس آئے لیکن بہت ہی جلد مایوس ہوگئے کہ ہم ایک علم دوست معاشرہ بننے سے کوسوں دور ہیں۔ ہمارے ہاںترقی کی نہ تو تڑپ ہے اور نہ ہی مادہ۔ ہمارے تعلیمی ادارے محض منشی پیدا کرتے ہیں کہ ڈیمانڈ ہی ایسی ہے۔ کوئی تحقیق کرنا ہے، کچھ ایجاد کرنا ہے تو سوال ہوتا ہے کہ بھئی ، ادھر کیا کررہے ہیں ، دنیا پڑی ہے، بھاگ جائیں۔ ہم جیسے لوگ ،جنہوں نے نوے کی دہائی میں ہوش سنبھالا تھا، جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں تعلیمی ادارے نوجوانوں کے عقوبت خانے ہی لگتے ہیں۔ اپنے تئیں اپنا قیمتی وقت برباد کرکے، ڈگریاں لیے ،باہر کی دنیا میں نکلے تو پتہ چلاکہ سفارش پر نوکری ملنے کے علاوہ انکی کوئی افادیت نہیں۔ اگر نجی شعبے میں جانا ہے تو پھر نئے سرے سے استاد بنانا پڑیں گے، نئے گرووں کی تلاش کرنا پڑے گی۔ مَت سیدھی ہوئی تو ٹھیک، ورنہ گئے کام سے۔ ہمیں لیکن ایک اور معاملہ درپیش رہا۔ ہمیں استاد طبیعت کے لوگ تو ملے لیکن ان میں حکمت کی نسبت "چترائی "کا پہلو زیادہ تھا۔ پڑھے لکھے تو تھے لیکن " نظریاتی" بھی تھے۔ زمانے سے انہوں نے چومکھی لڑائی لڑی تھی تب ہی کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن اس کامیابی تک پہنچتے پہنچے ان میں" کمرشلزم" آگیا تھا۔ وہ جن میں دانائی تھی، وہ رسمی تعلیم سے مبرا تھے۔ ان سے ہماری خوب نبھی۔ پوچھا: باباجی، آپکے زمانے میں رشوت تھی۔ جواب ملا: نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ پولیس نہیں تھی۔ رشوت کیسے بند ہوسکتی ہے؟ پولیس کو بند کردیں۔ میں نے سٹپٹا کر دیکھا تو بولے: "اگر پولیس کا خوف نہ ہوتو کون مائی کا لعل مجھ سے رشوت لے سکتا ہے؟" ایک دن سید پور کے بیچوں بیچ گزرتی ندی کے کنارے بیٹھے تھے، پیچھے پہاڑ کی چوٹی، منال، پر بنے ریستورانوں کی وجہ سے یہ گندی ہوگئی تھی۔کافی گڑ بڑائے ہوئے تھے۔ "کہاں ان کی مائوں نے انہیں جنا، کہاں پلے بڑھے اور تشریف لارکھی ہے ہمارے سروں پر۔ کہیں اور کیوں نہیں گئے، کوئی اور کام کیوں نہیں کرلیا؟"۔ کچھ دیر خاموش ہوئے,بولے : "زمانے کی مت اْلٹی ہوگئی ہے"۔ میں نے پوچھا، کیسے؟ بولے: "لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کچھ کر رہے ہیں تو کیوں کر رہے ہیں، کچھ کھارہے تو کیا اور کس لیے، کچھ بول رہے ہیں تو کیوں ؟"۔ کیا یہ مت سیدھی ہوسکتی ہے؟ انہوں نے نفی میں سر ہلادیا۔ بولے: " کسی کی مت کو سیدھا کرنے کے لیے انسان کو اپنی مت الٹاکرنا پڑتی ہے اور یہ ایک پر خطر کام ہے۔ کیا خبر،کل کلاں ،یہ سیدھی ہو بھی پائے یا نہیں "۔