پاکستان میں گزشتہ چونتیس سال کی مختصر مدت میں تیسری دفعہ امریکی سازش سے ’’Regime change‘‘یعنی حکومت کی تبدیلی کا آپریشن کیا گیا ہے،تینوں آپریشن کے بعد انہیں کٹھ پتلیوں کو حکومت سونپی گئی جنہیں نو اپریل 2022ء کو سونپی گئی ہے ، حکومت تبدیلی کے تینوں منصوبوں میں امریکا کو اگرچہ کامیابی حاصل ہوئی لیکن وہ بہت چھوٹے اور ضمنی فوائد حاصل کرسکا مگر اس کا اصل اور بڑا مقصد کبھی پور انہیں ہوا۔ وہ بڑا مقصد تھا پاکستان کے ’’ایٹمی پروگرام ‘‘کی بساط لپیٹ دینا۔ پاکستان کا یہ پروگرام ایک پیچیدہ اور تہہ در تہہ نظام تحفظ میں محفوظ ہے۔ سیاسی حکومتوں کی پہنچ سے دور تو ہے ہی مگر کوئی فوجی ڈکٹیٹر بھی اسے بند کردینے کی ہمت رکھتا ہے نہ طاقت۔ عمران خان کے حکومت میں آنے سے امریکا کی تشویش دوچند ہوگئی تھی، اب صرف ایٹمی ہتھیاروں کا مسئلہ ہی درپیش نہیں تھا بلکہ عمران خان بعض نوجوان مسلم قیادتوں کے ساتھ مل کر خودمختاری اور خودانحصاری کی راہ پر چل نکلا، اس نے دوسرے دوست ملکوں کو یہ راہ سجھادی کہ مسلم بلاک کا قیام اور آزاد خارجہ پالیسی انہیں زیادہ محفوظ بنا سکتی ہے ، عمران خان کی پرکشش اور طلسماتی شخصیت نے دنیا بھر کی قیادت خصوصاً مسلم دنیا میں حیرت انگیز تحریک پیدا کرتی جارہی تھی۔ چین کی دوستی ، روس کا تبدیل شدہ رویہ اور ان کا امریکا کے مقابلے عالمی طاقت اور معاشی دیو بن جانا اور مسلم دنیا کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات۔ یہ بلاک امریکا ، یورپ ، جاپان بلاک کے مقابلے میں کہیں بڑا ، مؤثر ، جنگجو اور دولتمند اتحاد ہوسکتا ہے ، پاکستان اس اتحاد میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے ۔ اس کلیدی کردار میں چار عناصر بڑے اہم ہے ، 1۔ پاکستان کی طاقتور فوج، 2۔ جغرافیہ جو چین ، روس اور وسط ایشیا کو باقی دنیا کے ساتھ زمین اور سمندر کے راستے جوڑ دیتا ہے ، 3۔ ایٹمی طاقت ہونا جو کمزور اور تحفظ کے متلاشی مسلم مملکتوں کو احساس تحفظ دیتا اور چین کی طرح رہنمائی کرتا ہے ۔4۔ پاکستان کا کسی مسلمان ملک کے ساتھ کوئی تاریخی یا جغرافیائی تنازعہ نہیں ہے۔ جیسا کہ ترکوں کا ایرانیوں کے ساتھ ، ایرانیوں کا عربوں ، عربوں کا ترکوں کے ساتھ۔پاکستان نہ صرف طاقتور ہے بلکہ وہ مسلمان ملکوں کے تاریخی تنازعات میں غیر جانبدار اور قابل بھروسہ ثالث کا کردار ادا کرسکتا ہے ۔ ضیاء الحق نے اپنی ذہانت اور سفارتکاری سے پوری دنیا خصوصاً مسلمانوں میں ایک خاص مقام حاصل کرلیا تھا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں ترکی ، ایران اور افغانستان کو ساتھ ملا کر روس کی جگہ لینے کی راہ پر چل نکلا تھا۔ چنانچہ اس نئے خطرے سے جان چھڑانے کے لیے امریکا نے بڑی عجلت میں اس کی جان لے لی۔ اور اب عمران خان کی پرکشش شخصیت اور اسلامی نظریے پر غیر معمولی یقین نے اسے بھی اس راہ پر گامزن کردیا۔ یہ امریکا کو کسی طور گوارا نہیں ہوسکتا تھا۔ چنانچہ حکومت کی تبدیلی کی سازش امریکا میں بنی گئی اور اس پر عملدر آمد کے لیے وہی سہولت کار میسر آئے جو پرویز مشرف کی رجیم چینج یعنی حکومت کی تبدیلی کا ذریعہ بنے تھے۔ چودہ سال پہلے ہونے والے حکومت تبدیلی کے آپریشن اور موجودہ منصوبے میں زیر ،زَبر تک کی تبدیلی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ وہی طریقہ ، وہی سہولت کار ، وہی دو کٹھ پتلی خاندان اور وہی دس سالہ منصوبہ ۔پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ کا میثاق جنرل پرویز کیانی کی گارنٹی ، چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کاوشیں ۔قارئین یقینا ذہین لوگ ہیں اسے خود منطبق کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ اب میں آپ کی توجہ لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم کی صدائے دردناک کی طرف دلانا چاہتا ہوں ، ایک سال پہلے جولائی 2021ء میں طالبان ابھی افغانستان میں فتح یاب نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت دور اندیش محب وطن ہارون اسلم نے ساری قوم کو متوجہ کرتے ہوئے برملا کہا کہ ’’امریکا پاکستان میں حکومت تبدیل کرے گا ، اس کے دوہی طریقے ہیں یا وہ عمران خان کو ضیاء الحق کی طرح راہ سے ہٹا دے گا یا اپوزیشن کی مدد سے تحریک عدم اعتماد لائے گا، یہ ان کی آزمودہ کٹھ پتلیاں ہیںاور مقامی سہولت کاروں کی مدد سے عمران حکومت ختم کردے گا۔ اب کے بار پھر وہ انہیں دس سال کی باریاں دے گا جس طرح 2008ء سے 2018ء تک ان دونوں کو باریاں دی گئی تھیں۔ اب وہ اپنے اصل ہدف تک رسائی کے لیے انہیں ہمیشہ کی طرح لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دے گا ، پاکستان سٹیٹ بینک کرپٹ (دیوالیہ)ہونے تک لے جایا جائے گا۔ دیوالیہ پاکستان میں افراتفری ، ہنگامے اور خانہ جنگی کی طرف لے جایا جائے گا۔ اور پھر اس کو بنیاد بنا کر براہ راست مداخلت کرکے پاکستان کو توڑنے کی کوشش کی جائے گی۔ اور اس کے بعد دیوالیہ پن سے نکلنے کی قیمت جو ہوگی وہ سب جانتے ہیں۔ یہ منزل بہت قریب ہے ، بشرطیکہ عمران خان کا رد عمل وہی ہوتا جس کی امریکا کو توقع تھی، اس کا نواز شریف جیسا رد عمل اور قوم کی طرف سے ساتھ دینے کا جنون اگرپرامن ہونے کی بجائے تشدد والا ہوتا تو خانہ جنگی اتوار دس اپریل سے شروع ہوسکتی تھی، لیکن اس نے نہایت سمجھداری سے کسی کا نام لینے اور سہولت کاروں کے خلاف جارحانہ ردعمل سے گریز کیا۔ اس کا رخ کٹھ پتلی حکومت کی طرف موڑ دیا، سہولت کاروں کو اس نے اپنی غلطی سدھارنے کو کہا، اداروں کے ساتھ تصادم کے گریز میں جہاں عمران خان نے بڑے صبر کے ساتھ عقلمندی کا ثبوت دیا وہیں ریٹائرڈ سروس مین خصوصاً بزرگ اور سینئر فوجی جرنیلوں ، سفارتکاروں اور سوشل میڈیا پر سرگرم منجھے ہوئے سابق اور موجود ٹی وی میزبانوں نے غیرمعمولی تیزی سے بروئے کار آکر بازی پلٹ دی۔ عمران خان مقبولیت کی غیرمعمولی لہر ،خواتین ، نوجوانوں کا جنون ، حکومت چھوڑنے کے چند گھنٹوں کے اندر ہونے والا غیرمعمولی رد عمل کسی پیشگی اطلاع ، منصوبہ بندی، اشتہار بازی ، قومی یا مقامی رہنماؤں کی کوشش کے بغیر پاکستان کے اندر تین سو سے زائد مقامات اور پاکستان سے باہر تین سو سے زیادہ دارالحکومتوں ، بڑے شہروں جیسے لندن ، پیرس ، نیویارک ، واشنگٹن ، شکاگو، ٹورنٹو حتی کہ سعودی عرب ، صومالیہ ، متحدہ عرب امارات تک جو کچھ ہوا اور جس طرح لوگ دیوانہ وار سڑکوں پر آئے ، پرامن احتجاج کیا ، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس ایک رات دنیا بھر میں دس کروڑ سے زیادہ لوگ احتجاج کے لیے سڑکوں پر تھے۔ یہ اب تک دنیا میں ہونے والے احتجاج میں نمایاں ترین واقعہ ہے۔ اس واقعے نے ہر سازش کو ناکام بنادیا ، کوئی وجہ نہیں کہ اداروں کے اندر اور عوام میں ایک قدرتی ہم آہنگی پیدا نہ ہو، یہ نوشتہ دیوار ہے جسے ہر کوئی پڑھ سکتا ہے ، دیکھ سکتا ہے حتی کہ عقل کے اندھے اور سیاہ دل بھی نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔ اس بحران کا حل سامنے رکھا ہے فقط تین استعفے ، ایک الیکشن ۔ سب غلطیاں درست اور سب خطائیں معاف کردی جائیں گی۔