بھارت میں مسلمانوں کی آوازکو اس قدر دبایا گیا ہے کہ وہاں کے سیاسی پلیٹ فارم مکمل طور پر خاموش ہیں۔ کانگریس میں کچھ بھارتی مسلمان ہیں مگر کانگریس کی مرکزی قیادت نے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر اس طرح احتجاج نہیں کیا ،جس طرح کرنا چاہیے۔ کانگریس کے اس دوغلے پن کی وجہ سے وہ نہ تو مکمل طور پر سیکولر سیاست کی علمبر دارپارٹی بن سکی ہے اور نہ انتہا پسند ہندوؤں کی پسندیدہ جماعت ! کانگریس اپنے داخلی بحران کے نتیجے میں ایک ایسی بیچ کی چیز بن کر رہ گئی ہے جس کو کوئی اپنا نہیں سمجھتا۔بھارت میں کمیونسٹ سیاست بھی اس قدر توانا آواز نہیں رہی جس طرح وہ ستر اور اسی کے عشروں میں تھی۔ اس طرح بھارت میں ہونے والے مسلمانوں کے خلاف اگر کہیں سے کوئی سہمی ہوئی آواز اٹھتی ہے تو وہ بالی ووڈ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی ہے۔ بالی ووڈ میں مسلمان اداکاروں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اس لیے لاکھوں سازشوں کے باوجود انہیں ہندو انتہا پسندی وہاں سے ہٹانے میں ناکام رہی ہے۔ حالانکہ کسی دور میں بال ٹھاکرے جیسے کرداروں نے بالی ووڈ سے مسلمان فنکاروں کو بے دخل کرنے کی پوری کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔ بالی ووڈ کے مسلمان فنکار جب محسوس کرتے ہیں بھارت میں انتہا پسندی کی وجہ سے پیدا ہونے والی گھٹن کی وجہ سے ان کی سانس رک رہی ہے تو وہ کسی نہ کسی صحافی سے بات کرتے ہوئے اپنی تکلیف کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی سب سے بڑی مخالف بالی ووڈ میں موجود ہندو قومپرست اداکاروں کی طرف سے ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ کبھی عامر خان اور کبھی شاہ رخ خان کوئی بات کرنے کے بعد تردیدوں کے تکلیف سے گزرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس بار مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں بھارت کے مشہور اور سینئر اداکار نصیر الدین شاہ نے مشہور صحافی کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے پہلی بار کھلے لفظوں میں کہا ہے کہ اگر بھارتی مسلمانوں کے لیے صورتحال تبدیل نہیں ہوئی تو بھارت میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔ نصیر الدین شاہ کا یہ بیان سن کر انتہا پسند ہندوؤں نے تو اپنی معمول کی کارروائی ڈالی مگر بھارت کا سمجھنے والے طبقہ اب سوچنے لگا ہے کہ نصیر الدین شاہ نے بات تو درست کی ہے۔ اس سے قبل بھارت کے بارے میں اتنی واضع اور ٹھوس بات کسی نے نہیں کی۔ حالانکہ جوکچھ نصیرالدین شاہ نے کہا ہے کہ کچھ راہول گاندھی کو کہنا چاہئیے تھا۔ کانگریس کی قیادت نہ صرف خوف کا شکار ہے مگر اس میں وہ دل اور دماغ ہی نہیں جو حالات کا دھارا اپنے حق میں موڑ سکے۔اس لیے راہول گاندھی ایک ایک قدم پھونک پھونک کر چلتے ہیں۔ وہ انتہا پسند ہندو نہیں مگر اس ہندو قومپرستی کی اس انتہا پسندی سے ڈرتے ہیں جس نے پورے بھارت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ایک وقت ایسا تھا کہ جب بھارت کا میڈیا بغاوت کی راہ پر چلتے ہوئے کم ڈرتا تھا۔ مگر اب بھارتی میڈیا بھی نہ صرف مصلحت پسندی کا شکار ہوگیا ہے بلکہ اس نے منافقت والا طرز عمل اختیار کیا ہے اور بھارت کی وہ عدلیہ جس کو کبھی اپنے فیصلوں پر ناز تھا وہ اسی خوف کے باعث تھر تھر کانپ رہی ہے۔اگر بھارت کی عدلیہ میں ہمت اور جرات ہوتی تو بابری مسجد کا فیصلہ ایسا نہ آتا جیسا آیا اور کشمیر پر ہونے والے آئینی حملے کے خلاف داخل ہونے والی درخواست کا حشر ایسا نہ ہوتا جیسا ہو رہا ہے۔ بھارت کی عدلیہ اور بھارت کا میڈیا پوری طرح سے ہندو انتہا پسندی کے دباؤ میں آچکے ہیں۔ اس طرح بھارت کی کروڑوں مسلمانوں پر جو برے حالات کا بوجھ پڑ رہا ہے اس کا ازالہ کرنے کے لیے کوئی ایسی قوت نہیں جس کو قانونی کہا جائے۔ یہ بات کسی بھی ریاست کے لیے بہت خطرناک ہوتی ہے کہ وہ جب ایک ایسے ککر پریشر کی طرح بن جائے جس میں کوئی سیفٹی والو نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ملک کے سوچنے سمجھنے والے شہریوں کی پریشانی فطری بن جاتی ہے۔ نصیر الدین شاہ نے جو بات کہی وہ کہنا تو بہت کچھ چاہتے تھے مگر ان میں ہمت نہیں تھی اور نصیر الدین شاہ صرف ایک ادکار نہیں ہیں۔ وہ ایک ادب دوست اور لکھنے پڑھنے والے انسان ہیں۔ ان میں جو ہمت آئی ہے اس سچ کی وجہ سے آئی ہے، جس سچ کے بارے میں ایک جرمن ادیب نے لکھا ہے کہ’’ وہ رات بہت خطرناک ہوتی ہے جس رات سچ کسی شخص کے دل اور دماغ پر قبضہ کرلیتا ہے۔ لوگ بہت گھبراتے ہیں سچ سے، وہ سچ بھلے دور ستاروں کے بارے میں کیوں نہ ہو‘‘ بھارت میں بھی سچ کی حالت یہی ہے۔ بھارت میں سچ بولنے والی آوازیں کم رہ گئی ہیں۔ اس لیے وہ ریاست بہت خطرات کا شکار ہے، جس ریاست کو سمجھانے والا کوئی نہ ہو۔ جس ریاست میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہو۔ جس ریاست میں ایک بڑی اقلیت پر قانون اور انصاف کے دروازے بند کیے جائیں۔ اس ریاست کو پھر فطری طوپر اس خوف کا شکار ہونا چاہئیے کہ اب بے انصافی کے شکار لوگ وہ راستے اپنائیں گے جو راستے ریاستی دستور کے مطابق آئینی نہ ہوں۔ دنیا کی کوئی ریاست نہیں چاہتی کہ اس کی بہت بڑی آبادی اس کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت اس طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جس طرف قانون کی سرحد ختم ہوتی ہے اور وہاں سے بغاوت کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ اگر کسی بھی آبادی کو مسلسل بے انصافی اور ذلت کا شکار بنایا جائے گا تو اس کے پاس بغاوت کے علاوہ اور کیا چارہ بچے گا؟ بھارت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بھارت ہر مسئلے کا الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے۔ اگر بھارت میں حالات بے قابو ہوگئے اور بھارتی مسلمان بغاوت کے راستے پر نکل پڑے تو اس صورتحال کا الزام بھی بھارت پاکستان پر عائد کرے گا۔ حالانکہ پاکستان نے بھارتی ریاست پر نریندر مودی کو مسلط نہیں کیا۔ نریندر مودی نے جس طرح بھارت کو صرف ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کا جو راستہ اپنایا ہے اس راستے کی منزل تباہی اور بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ مگر بھارت کو یہ پرواہ نہیں مسلمانوں کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے؟ بھارت مودی کی قیادت میں اپنی سرزمین پر مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک اختیار کرتا رہا ہے،جس کے نتائج بقول نصیرالدین شاہ ایک خطرناک خانہ جنگی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتے۔ پردھان منتری نریندر مودی نے مسئلہ کشمیر کو سلجھانے کے بجائے پورے بھارت کو مسلمانوں کے لیے کشمیر بنا دیا ہے۔ اگر کشمیر میں انصاف اور آزادی کے لیے بغاوت کی آگ دہک رہی ہے اور اس آگ کو بجھانے میں کسی حکومت کو کامیابی نہیں ملی تو پھر جب پورے بھارت میں مسلمانوں کی آواز گونج اٹھے گی تو پھر کیابھارت ریاست اس کو روک پائے گی؟ بھارت کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔بھارت نے ایک طرف خارجی سطح پر اپنے دشمن بڑھانے کی پالیسی اپنائی ہے اور دوسری طرف اس نے داخلی سطح پر اپنی بہت بڑی اور باصلاحیت اقلیت یعنی مسلمانوں کے لیے حالات ایسے کردیے ہیں،جن حالات کا فطری نتیجہ ایک بہت بڑی بغاوت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ بھارت کے مسلمانوں پر جس طرح مودی حکومت نے مظالم ڈھائے ہیں ، اس کا حتمی نتیجہ وہی نکلنا ہے ، جس کا اظہار بھارت کے باشعور اداکار نصیر الدین شاہ نے کیا ہے۔ یہ وہی بات ہے جس کو تاریخ میں کئی بار پرکھا گیا ہے۔ اگر اس بات کو تجربات کی روشنی میں نہ دیکھا جاتا تو فارسی زبان میں یہ کہاوت کس طرح جنم لیتی کہ ’’تنگ آید بجنگ آید‘‘