ارشادِ ارشی کی یہ غزل اس دور کی ہے جب ہم ستر کی دہائی میں یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے۔ سوچئے اس دور میں بھی مایوسی کا یہ عالم کہ وہ پکارتی ہے: میرے ہاتھوں میں نہیں کوئی ہنر اب کے برس جانے کس اسم پہ کھلتا ہے یہ در اب کے برس اسی کیفیت میں لکھی ہوئی یہ غزل اس دور پر تو شاید اتنی صادق نہ آتی ہو، لیکن 2022ء ایک ایسا سال پاکستان کی تاریخ میں گزرا ہے، جو شاید پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ کا سب سے ہولناک اور المناک سال تھا۔ پے در پے مصیبتوں، آفتوں، بلائوں، بے یقینیوں اور حکومتی جبرواکراہ کا یہ سال جس طرح بیتا ہے اس کا ایک ایک لمحہ اشک آلود ہے۔ لیکن اپنی تمام تر بے یقینیوں کے باوجود یہ سال اس پوری قوم کو ایک یقین کے پیکرِ لازوال میں ڈھال گیا۔ اس سال کا دس اپریل وہ لمحہ تھا جس نے پاکستان کی تاریخ میں ایک حدِ فاصل قائم کی۔ اس دن ایک نمایاں تقسیم ہوئی، جس نے اس مملکتِ خداداد پاکستان کے ماضی اور حال کو مکمل طور پر جدا کر کے رکھ دیا۔ دس اپریل سے پہلے کے پاکستان کے عوام پژمردہ اور مایوسی کے عالم میں ہر لمحہ صبر کرنے والے اور خاموشی سے ہر فیصلہ برداشت کرنے والی ایک قوم تھے۔ کبھی کبھی احتجاج کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے، کچھ باتیں منوا بھی لیتے، لیکن پھر ’’عظیم‘‘ رہنمائوں کے فریب میں آ کر خاموش سے ہو جاتے۔ یہ لوگ ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناحؒ کی قیادت میں باہر نکلے تھے لیکن ان نکلنے والوں کی شناخت بہت نمایاں تھی۔ یہ صرف مشرقی پاکستان کے حریت پسند عوام تھے یا کراچی کے جیالے۔ یہ قوم 1977ء میں بھی الیکشنوں میں کی جانے والی دھاندلی کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے سراپا احتجاج بن گئی تھی۔ چار ماہ کی جاندار تحریک اور پھر ضیاء الحق کو اپنا ’’نجات دہندہ‘‘ تسلیم کرنے کے بعد یہ قوم چادر تان کر سو گئی اور اس کے انقلابی رہنما نظامِ مصطفی کے نعروں کو وزارتوں کی دہلیز پر بیچ آئے۔ اس کے بعد یہ لوگ اپنے رہنمائوں سے بھی مایوس ہو گئے اور ’’نجات دہندوں‘‘ سے بھی۔ انہیں اس بات کا خوب ادراک ہو گیا کہ یہ دونوں اقتدار کی بندر بانٹ میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ دونوں ہمجولیاں ہیں جو باریاں بدلتی رہتی ہیں۔ اس پینتالیس سال کے عرصے میں اس ملک پر جو کچھ بیتا اس میں حکمرانوں کی بددیانتی اور نااہلی کے ساتھ ساتھ عوام کی بدترین خاموشی بھی شامل تھی۔ پاکستان کو 1970ء سے لے کر اب تک جس طرح عالمی قرضوں کی زنجیر سے جکڑا گیا، ان میں سے گزشتہ پینتالیس سال بدترین تھے۔ اس دور میں دو پارٹیوں نے پاکستان پر ’’نجات دہندوں‘‘ کی سرپرستی میں حکومتیں کی اور خود ایک ’’نجات دہندہ‘‘ بھی بذاتِ خود حکمران رہا، جس نے انہی دونوں پارٹیوں کے ارکانِ اسمبلی کو ملا کر اپنی ایک منظورِ نظر پارٹی بنائی۔ لیکن بے نظیر سے نواز شریف، اور پھر شہباز شریف تک آتے آتے یہ قوم باسٹھ ہزار ارب روپے اور تقریباً 274 ارب امریکی ڈالروں کی مقروض ہو گئی، اور اب ہماری حالت یہ ہے کہ اس سال کے اختتام پر ہمارے خزانے میں 5.82 ارب ڈالر موجود تھے اور ہم نے اس سال میں مارچ تک 8 ارب ڈالر صرف ان قرضوں کا سود اور قسط ادا کرنی ہے جو ان شاہ خرچ حکمرانوں نے پینتالیس سالوں میں ہم پر مسلّط کئے ہیں۔ اگر اتنے قرضوں سے ہماری حالت ہی بدل جاتی تو ہم شکر ادا کرتے۔ لیکن ہم تو پہلے سے بھی بدتر ہوتے چلے گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے ان لیڈروں کو اپنے آقائوں کی طرح تسلیم کیا۔ ہم بحیثیت قوم دو بڑے اور چند چھوٹے چھوٹے مفاد پرست گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ ہم نے ہر اس جھوٹ کا دفاع کیا جو ہمارے ’’ہردلعزیز‘‘ رہنما ہمارے سامنے بولتے رہے اور ہم ان کی کرپشن پر بھی بحیثیت مجموعی پردہ ڈالتے رہے۔ ہمارے ’’نجات دہندہ‘‘ اپنے لئے ایک ’’مخصوص‘‘ وقت کے لئے مخصوص پارٹی کو ’’منظورِ نظر‘‘ بناتے اور پھر اسے نظروں سے گرا کر کسی دوسری کو محبوب بنا لیتے۔ اسی کھیل میں پینتالیس سال بیت گئے اور اس قوم کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا۔ انقلابات کی تاریخ سے نظریات کشید کرنے والے بتاتے ہیں کہ ہر قوم کا ایک ’’نکتۂ برداشت‘‘ (Tipping Point) ہوتا ہے۔ مشہور مصنّف، صحافی اور مقرر میلکم گلیڈ ول (Malcom Gladwill) نے اس نظریے پر اپنی مشہور کتاب "The Tipping Point" تحریر کی ہے۔ اس کتاب کا ثانوی عنوان ہے ’’کیسے چھوٹی چیزیں بہت بڑا فرق پیدا کر دیتی ہیں‘‘ (How little things can make big difference)۔ اس کتاب کا نچوڑ یہ ہے کہ کبھی کبھی ایک چھوٹا سا واقعہ بھی بڑے بڑے سانحات اور انقلابات کو جنم دے دیتا ہے۔ ایسا بظاہر بہت ہی عجیب لگتا ہے لیکن ہوتا یوں ہے کہ کئی سالوں کا جبر، کشمکش اور اذیت جمع ہوتی رہتی ہے اور جب عوام کی قوتِ برداشت ایک ایسے نکتے پر آ جاتی ہے تو پھر ایک چھوٹا سا واقعہ ہی انہیں فوراً مشتعل کر دیتا ہے۔ اسکی مثال یوں ہے کہ آپ ایک گدھے پر مسلسل بوجھ لادے جاتے ہیں۔ ایک ایک لکڑی کر کے ایک ہزار لکڑیاں تک لادتے ہیں اور وہ برداشت کر لیتا ہے لیکن جیسے ہی آپ ایک ہزار ایک لادتے ہیں تو وہ ہڑبڑا کر سب کچھ گرا دیتا ہے اور مزید بوجھ اُٹھانے سے انکار کر دیتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں دس اپریل 2022ء اس نکتۂ برداشت کا دن تھا اور 2023ء اس یقین کا سال ہو گا کہ ہم اب اس قابل ہیں کہ سب کچھ بدل سکتے ہیں۔ اپنے تمام معاشی، سیاسی اور انتظامی حوالوں سے یہ بدترین سال تھا۔ صرف دہشتگردی کے واقعات میں چار گنا اضافہ ہوا۔ پورے ملک میں 376 دہشت گرد حملے ہوئے جو کہ گذشتہ کئی سالوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھے۔ غربت، بیروزگاری، مہنگائی، بیماری اور افلاس میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ عوام کی قوتِ خرید بھی ختم ہوئی اور حکمرانوں کی ہوسِ اقتدار بھی بڑھتی رہی۔ ملک پورا سال ایک تحریک کے عالم میں رہا۔ لیکن اس سب کے باوجود پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں ’’نجات دہندوں‘‘ کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ پہلی دفعہ 17 جولائی 2022ء کو ان بیس صوبائی ممبرانِ اسمبلی کی سیٹوں پر الیکشن ہوئے جو پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے پر نااہل ہوئے تھے۔ یہ سیٹیں کبھی ’’نجات دہندوں‘‘ کے کنٹرول میں ہوا کرتی تھیں۔ وہ جسے بخش دیتے اس کی حکومت بن جاتی، لیکن اس دفعہ یہ کنٹرول عوام نے ہوا میں اُڑا دیا۔ اگلی چال یہ چلی گئی کہ وہ گیارہ کمزور حلقے جن پر پی ٹی آئی کے ممبران جیتے تھے، ان کے استعفے منظور کر لئے گئے۔ مگر عمران خان وہ الیکشن جیت کر سب کو حیران کر گیا۔ نومبر کی تین تاریخ کو وزیر آباد میں جس طرح کے قاتلانہ حملے میں عمران خان معجزانہ طور پر زندہ بچ نکلا اس سے اور کچھ ثابت ہو نہ ہو یہ محاورہ سچ نکلا کہ ’’نقارۂ خلق کو آوازۂ خدا سمجھو‘‘۔ سال کے جاتے جاتے اپنی طاقت مجتمع کرتے ہوئے اپنی ہی توڑی ہوئی ایم کیو ایم کو دوبارہ جوڑا جا رہا ہے اور اپنی ہی بنائی ہوئی ’’باپ‘‘ پارٹی کے اراکین کو دوسری پارٹیوں کو تحفے میں دیا جا رہا ہے۔ یہ سب چلتا رہے گا، لیکن 2022ء نے یہ طے کر دیا ہے کہ وہ اس ملک میں ایک نئی تاریخ رقم کر چکا ہے۔ نئے سال کیلئے ارشاد ارشیؔ کے شعر کا یہ مقطع حسبِ حال ہے: تو نے جی بھر کے بہت خود کو بگاڑا ارشی ؔ تو مری مان تو جی بھر کے سنور اب کے برس